یہ زندگی ہے ہماری

تعارف عبید اللہ علیم ؔ آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

عبیداللہ علیم پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے نامور شاعر ہیں جنہیں شاعری کے مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں" پر آدم جی ادبی انعام ملا۔عبید اللہ علیم 12 جون 1939ء کو بھوپال ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔ 1952ء میں وہ اپنے والدین کے ہمراہ پاکستان آ گئے۔ 1969ء میں انہوں نے کراچی یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ پھر پاکستان ٹیلی وژن میں بطور پروڈیوسر ملازمت اختیار کی مگر حکام بالا سے اختلافات کی وجہ سے 1978ء میں انہوں نے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ عبید اللہ علیم کا شمار موجودہ دور کے غزل کے بہترین شعراء میں ہوتا ہے۔ انکی شاعری کا پہلا مجموعہ "چاند چہرہ ستارہ آنکھیں" 1978ء میں شائع ہوا جس پر انہیں آدم جی ادبی انعام بھی ملا۔ اس کے علاوہ انکے شعری مجموعوں میں "ویران سرائے کا دیا" اور "نگارِ صبح کی امید" شامل ہیں۔ ان تینوں مجموعہ ہائے کلام پر مشتمل ان کی کلیات ’’یہ زندگی ہے ہماری‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔ ان کی دو نثری تصانیف "کھلی ہوئی ایک سچائی" اور "میں جو بولا" کے نام سے شائع ہو چکی ہیں۔18 مئی 1998ء کو عبید اللہ علیم کراچی پاکستان میں وفات پا گئے اور کراچی میں اسٹیل مل کے نزدیک رزاق آباد میں باغ احمد نامی قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔۔

یہ زندگی ہے ہماری عبید اللہ علیم ؔ نگارِصبح کی اُمید میں ،2000ءمارچ ویران سرائے کا دیا،1986جولائی چاند چہرہ ستارہ آنکھیں،1974جنوری یہ زندگی ہے ہماری نگارِصبح کی اُمید میں عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں  انتساب وہ جس کے نام کی خوشبو سے سانس چلتی ہے یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ7۔12  روشنی

شاعر ایک محبت بھری دعا ہے جو سب کیلئےہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ شاعر زمینی زندگی کا سب سے طاقتور استعارہ ہے جو اپنی محبت اور استغراق سے انسانی روح کے ان خوابیدہ تاروں کو چھیڑتا ہے جو زمانی گردشوں میں اپنے لحن کھو دیتے ہیں اور شاعر ایک سرمدی اور ابدی نغمے کی سماعت کے لئے روح کو زندہ کرتا ہے مگر یہ کام مشقِ سخن سے نہیں ہوتا استغراقِ ذات سے ہوتا ہےاور اُس حال سے ہوتا ہے جو چشمے کی طرح شاعر کے اندر ہی پھوٹتا ہےاورخودبخود پھوٹتا ہے۔چشمے کا بڑا چھوٹا ہونا کوئی مسئلہ نہیں ۔اصل حقیقت وہ لذت اورتکلیف ہے جس کے جاری ہونے میں شاعر کا زیادہ دخل نہیں ہوتا۔ہاں جب آمد ہوتی ہے تو شاعر اس پانی کے لیے بند بناتا ہے ،اسے ضائع ہونے سے بچاتا ہے۔سو جس درجہ کا استغراق ِذات ہوتا ہے اسی درجہ کا شعر ظہور کرتا ہے۔شاعر کبھی جانے اور کبھی انجانے پن میں ایسے رموز کا اظہار کرجاتا ہے جو تعقّلِ محض کے لیے ناممکن ہوتے ہیں۔مگر کبھی کبھی شاعر اپنے روحانی عمل میں خالص نہیں رہتااور شعر گوئی کی فرضی کاوش میں گرفتار ہوجاتا ہے۔ہر چند کے یوں بھی کبھی کبھی اس کے یہاں اپنے خشک چشمے کا پانی کھنچ آتا ہے مگر یہ اس کے اصل سے علیحدہ ایک وجود ہوتا ہے جو نسبتًا ناقص ہوتا ہے ۔اس کا اندازہ لگانا بہت مشکل کام ہے مگر شاعر کی مجموعی کیفیت کو سامنے رکھ کر اس ذائقے سے گزرنے والے آسانی سے اندازہ لگا لیتے ہیں۔         شاعری اجتماعی حقیقت کا انفرادی عمل ہے اور یہ عمل عالم حواس کی یکجائی سے ظہور کرتا ہے اور یہ سب کچھ جاننے میں نہ جاننے کی حیرانی ہے کہ صرف زمینی گردشیں آسمانوں کے بھید نہیں کھول سکتیں اور اس جوہر کی شناخت یہ ہے کہ یہ اُن پر کھلتا ہے جو خود پر کھلتے ہیں۔         ادب انسان کی جذبی اور روحانی کیفیت کا نام ہے اور جو شے جذبے اور اور روح کی غیر ہے وہ ادب کے لیے غیر ہے۔شخصیت ادب ہے اور بے شخصیت کوئی ادب نہیں ۔شخصیت اگر ہے تو زمان وذات دونہیں ایک ہیں اور ادب ایک کا نمائندہ ہے اور ایک خیر اعلیٰ ہے مگر انسان کی جبریت اسے مادے اور روح کی تنویت میں مبتلا کرتی ہے۔شخصیت سے گریز ہوکہ وابستگی اپنے اصل میں دو نہیں ہوسکتی۔زمان ومکان ،داخل خارج اور اصل غیر کسی شخصیت سے ایک ساتھ گزرتے ہیں ۔جیسے سورج سے شعاعیں ۔یہی ادبی کلیت ہے شاعری نہ اوزان کی تکرار کانام ہے اور نہ کسی شعبدہ بازی کا۔اس قسم کی ساری بحثیں اور مقدمات ان لوگوں کے ہیں جو شاعر کے احوال سے بے خبر اپنی حالتوں سے لفظوں کی ناپ تول کاکام کرتے ہیں اور یہ ہر زمانہ میں ہوتے ہیں اور انہیں کی موجودگی سے شاعراپنی اعجازی قوت کا اندازہ لگاتا اور خوش ہوتا ہے۔         آج کل روش یہی ہے کہ شاعر کا پہلا مجموعہ دوچار سال کی مشقِ سخن میں  آجاتا ہے ۔داد دینے والے ایک ہی لے میں سب کو داد بھی دے جاتے ہیں۔اس سے ایک تو خالص ادب کے قاری کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے ۔دوسرے یہ کہ شاعر کی تخلیقی قوت مصنوعی داد سے بلاوجہ دب کر رہ جاتی ہے ۔الّا ماشاءاللہ کوئی شاعر خود صاحب  ذوق ہو تو اپنے تجربے اور احساس کی منزل دریافت کرتا ہے۔ورنہ مصنوعی  نقاد کی تلوار سے کٹ کر مر جاتا ہے۔المیہ یہ ہے کہ باطنی حقیقتوں کا بازار اب سرد پڑ چکا ہے۔جنہیں سمجھانا ہے وہ سمجھتے نہیں۔جو سمجھنے کے اہل نہیں ہیں ان سے ہمیں کوئی نسبت نہیں۔آج کا ادب جن راہوں پر اپنے چراغ جلا رہا ہے اُس کی روشنی ان لوگوں تک بھی بڑی مشکل سے پہنچتی ہے جواس راہ کے مسافر ہیں۔بے حقیقت اور کم سواد لوگ اقتصادی بنیادوں کی مضبوطی پر کچے ادب پر پاؤں جما کر کھڑے ہوئے ہیں اور ان کا مسلسل یہ کام ہے کہ اتھلی اور بے مایہ سیاست اور پینترے بازوں کو اپنا گرو قراردیں اور اس کے ذریعہ اور وسیلہ سے زندگی کی تفہیم رکھنے والوں کو پیچھے دھکیل دیں۔بہ ظاہر ان کی کامیابیاں معاشرہ میں عام بھی نظر آتی ہیں۔اخباروں کے صفحات ،عامیانہ نام نہاد ادابی رسائل وڈائجسٹوں کی خرافات اور تشہیری میڈیمز کی بے اوقات ٹیں ٹیں کی مصنوعی چکا چوند ھ نے معنی،ادراک اور عرفان کے حقیقی مفہوم ومطالب کو ایسے روند ڈالاہے اور اس طرح پامال کردیا ہے کہ اب کسی بات میں بھی اور کسی بھی حقیقت میں اتنا زور نہیں کہ وہ مادی اور جبلی آدمی کو اس کے حقیقی منصب پر لاکھڑا کرے۔         کسی بھی نظریہ پر ایمان رکھنا بری بات نہیں لیکن اپنے نظریہ کے خلاف اپنی زندگی گزارنا ایک مکروہ عمل ہے۔مگر کیاکیا جائے کہ ہماری صدی میں چیزیں اتنی گڈمڈ ،الٹ پلٹ اور اتھل متھل ہوگئی ہیں کہ اصل اورنقل میں امتیاز کرنا مشکل سے مشکل تر ہوگیا ہے اور اتنے جھگڑے اور اتنے ہیرپھیر پڑ گئے ہیں کہ ادب جسے حالتوں کی حالت کہنا چاہئے۔بے یارومددگار اورمخدوش ہو کر رہ گیاہے۔اب توبس یہ ہے کہ پیسہ اورطاقت جہاں سے اور جس قیمت پر بھی ملے حاصل کروخواہ ضمیر داؤ پر لگا ہو یا روح اور جس وقت جس نعرے میں ذراسا بھی فائدہ ہو اس کے ہمنوا بن جاؤ اور حقیقتًا جو لوگ نیکی،سچائی اور حسن کے قائل ہیں ان کا منہ کالا کرتے چلے جاؤ۔         مذہب کے بعد ادب ایک ایسا داعی رہ جاتا ہے جو انسان کو اس کے باطن میں زندہ کرنے کا ظرف رکھتا ہے۔اس داعیہ اور نظریہ کے زوال نے معاشرہ میں درودیوار،لباس،عام زندگی کے مصنوعی کروفر،روپیہ کو آخری قدر اور سرمایۂ افتخار سمجھنے والوں اور مادی سبقتوں کی دوڑنے انسان کو جنگل کا بادشاہ بنا دیا ہے۔         آدمی خوب سمجھتا ہے کہ بے حسی،بے غیرتی اوراندر کا گھناؤنا پن عام ہونے کے کیا اسباب ہیں اور آدمی یہ بھی خوب سمجھتا ہے کہ اس کے کیا علاج ہیں؟مگر علاج چاہنے والے اور انسانی روح پر بہار لانے والے خود اتنے بیمار اور خزاں رسیدہ ہوچکے ہیں کہ ان کی شخصیتوں کی چھوٹی چھوٹی  بہاریں اور چھوٹے چھوٹے اجالے کا کائنات کی گہری اور دبیز تاریکی کو روشن نہیں کر سکتے۔آسمانی پانی کا تصور اوراس کا اظہار ایک ایسا گردن زدنی جرم ہے کہ نہ "ملاں "سے بچا جا سکتا ہے نہ کہ صوفی سے،نہ نام نہاد دانشوروں سے اور نہ کج نہاد سیاستدانوں سے ۔آدمی بیچارہ  جائے تو جائے کہاں۔         یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات کے بارہ میں یہ سوچ لیا جائے کہ اس پر روشنیوں کے دروازے ہمیشہ کے لئے بند ہوچکے ہیں۔یہ کیسے فرض کر لیا جائے کہ خالق اپنی مخلوق کو پیدا کرکے بھول چکاہے۔مگر یہ باور کرنا پڑے گا کہ اس گھور تاریکی میں کچھ چراغِ آخر ِ شب ابھی اپنی پوری توانائی کے ساتھ روشن ہیں۔ یہ یقین کرنا پڑے گا کہ یہ چراغ رات کا پورا بوجھ اٹھائے ہوئے اپنے سینے جلا رہے ہیں اور یہ ہم ہیں۔         دوش پر بار ِ شبِ غم لئے گل کی مانند         کون سمجھے کہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ         ہم جو اپنے آپ سے یہ عہد کرچکے ہیں کہ ہم اپنے چہروں کا نور کھودیں گے مگر کائنات کے حسین چہرے کو بہر طور پُرنور کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔شور مچاتے رہیں گے اور جنگ کرتے رہیں گےاورجہاں جہاں بھی جانا پڑا ہم جائیں گے اور لڑیں گے اور یہ تسلیم کرواکے دم لیں گے کہ ہم کائنات میں وحئ والہام کے حقیقی وارث ہیں اور ہماری روشنیوں سے ہی زمانہ اپنے خدوخال سنوارے گا۔         معاشرہ لاکھ مرجائے مگر اتنا کبھی نہیں مرتا کہ وہ اصل حقیقت سے آشنا نہ ہوسکے اور اگر اتنا مرجائے تو سرے سے اس کا وجود ہی ختم ہوجاتا ہے اور اُسے تہذیبی زوال آجاتا ہے مگر مجھے معلوم ہے کہ یہ معاشرہ اپنے اندر ایک زندگی کی تمنا رکھتا ہے اور اپنے لوگوں کی ایک پہچان بھی رکھتا ہے۔اُسے معلوم ہے کہ ہر جگہ بازار نہیں ہے ۔ہر انسان دکاندار نہیں ہے۔ہر شے بکنے اور خریدنے کے لیے نہیں ہے۔         مگر یہ بھی تو ہے کہ میں ،آپ،دوسرے ہم سب اپنے اپنے ذاتی میلانات ۔مذاق اور حوالے میں زندہ ہیں اور الگ الگ ایک اکائی کی صورت میں موجود ہیں۔ان سب کی ایک اکائی کیسے بنے؟ہر چند کہ یہ پہلے بھی کبھی ممکن نہ تھا اور نہ ممکن ہوگا مگر اتنا تو تھا کہ ادن کے اچھے برے ہونے کا ایک اجتماعی رویہ موجود تھا۔مگر آج لکھا لفظ ایک عجیب تنہائی کا شکار ہے۔مدعی خود لکھنے والا ہے مگرعدالت کوئی نہیں۔عدالت بنتی بھی تو 5،5،۔10،10چھٹ بھئے ادیبوں کے ٹولے کی صورت میں ۔یہ ٹولہ اسے نہیں مانتا اوروہ اُسے نہیں مانتا۔ادب کوعوام تک پہنچانے والے میڈیمز بھی خود اپنے مفادات کے اسیر ہیں اور لکھنے والے بھی اپنے احتساب میں خودفیل ہوچکے ہیں اور اپنے آپ سے شرمندہ ہیں۔         بات یہ ہے کہ لفظ،لکھا ہوا لفظ کتنا طاقتور ہے۔اس کا فیصلہ صرف اور صرف مستقبل میں محفوظ ہےاور انسان جب خدا کے ہاتھ پر بیعت کرتا ہے تو زمینی ہار اور ملامت اور سب وشتم سے اس کا کچھ نہیں بگڑتا۔ وہ اپنے ضمیر کی روشنی میں فیصلہ کرتا ہے اور اپنے اندرون کی عدالت میں کھڑا ہوتا ہے۔میں آپ میں سے ہوں مگر شائد ان لوگوں میں سے بھی ہوں جو آپ کے بعد آئیں گے اور پھر جوان کے بعد آئیں گے اور پھر جو ان کے بعد آئیں گے ۔میرا وجدان،آپ کے وجدان کا ایک آئینہ ہے۔مگر آپ اس میں اپنا چہرہ اسی وقت دیکھ سکتے ہیں جب آپ آئینے کے مقابل کھڑے ہونے کی ہمت رکھتے ہوں۔

عبید اللہ علیمؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ13۔15 1۔ نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے نگار صبح کی امید میں پگھلتے ہوئے چراغ خود کو نہیں دیکھتا ہے جلتے ہوئے وہ حسن اس کا بیاں کیا کرے جو دیکھتا ہو ہر اک ادا کے کئی قد نئے نکلتے ہوئے وہ موجِ میکدۂ رنگ ہے بدن اس کا کہ ہیں تلاطم ِمئے سے سبو اچھلتے ہوئے تو ذرہ ذرہ اس عالم کا ہے زلیخا صفت چلے جو دشتِ بلا میں کوئی سنبھلتے ہوئے یہ روح کھنچتی چلی جا رہی ہے کس کی طرف یہ پاؤں کیوں نہیں تھکتے ہمارے چلتے ہوئے اسی کے نام کی خوشبو سے سانس چلتی رہے اسی کا نام زباں پہ ہو دم نکلتے ہوئے خیال و خواب کے کیا کیا نہ سلسلے نکلے چراغ جلتے ہوئے آفتاب ڈھلتے ہوئے اندھیرے ہیں یہاں سورج کے نام پر روشن اجالوں سے یہاں دیکھے ہیں لوگ جلتے ہوئے اتار ان میں  کوئی اپنی روشنی یا رب کہ لوگ تھک گئے ظلمت سے اب بہلتے ہوئے وہ آ رہے ہیں زمانے کہ تم بھی دیکھو گے خدا کے ہاتھ سے انسان کو بدلتے ہوئے وہ صبح ہو گی تو فرعون پھر نہ گزریں گے دلوں کو روندتے انسان کو مسلتے ہوئے 1998 عبید اللہ علیمؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ16 2۔ چپ رہوں تو عذاب آتا ہے چپ رہوں تو عذاب آتا ہے بولتا ہوں خراب ہوتا ہوں عبید اللہ علیمؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ17۔19 3۔ تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو جو آنکھ بھی دیکھے تمہیں سرسبز ہو تم اس قدر شاداب ہو تم کون ہو تم لب بہ لب ،تم دل بہ دل ،تم جاں بہ جاں اک نشہ ہو  اک خواب ہو تم کون ہو جو دست رحمت نے مرے دل پر لکھا تم عشق کا وہ باب ہو تم کون ہو میں ہر گھڑی اک پیاس کا صحرا نیا تم تازہ تر اک آب ہو تم کون ہو میں کون ہوں وہ جس سے ملنے کے لیے تم اس قدر بے تاب ہو تم کون ہو میں تو ابھی برسا نہیں دو بوند بھی تم روح تک سیراب ہو تم کون ہو یہ موسم کمیابی گُل کل بھی تھا تم آج بھی نایاب ہو تم کون ہو چھوتے ہو دل کچھ اس طرح جیسے صدا اک ساز پر مضراب ہو تم کون ہو دل کی خبر دنیا کو ہے تم کو نہیں کیسے مرے احباب ہو تم کون ہو وہ گھر ہوں میں جس کے نہیں دیوار و در اس گھر کا تم اسباب ہو تم کون ہو اے چاہنے والے مجھے اس عہد میں میرا بہت آداب ہو تم کون ہو 1995 عبید اللہ علیمؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ20 4۔ رات اک خواب تھا رات اک خواب تھا دل بہ دل، لب بہ لب اک قیامت بدن روح سے لب بہ لب 1989 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ21۔22 5۔ کس خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی کس خواب کی یہ ہم کو تعبیر نظر آئی زندان نظر آیا، زنجیر نظر آئی سب اپنے عذابوں میں سب اپنے حسابوں میں دنیا یہ قیامت کی تصویر نظر آئی کچھ دیکھتے رہنے سے، کچھ سوچتے رہنے سے اک شخص میں دنیا کی تقدیر نظر آئی جلتا تھا میں آگوں میں روتا تھا میں خوابوں میں تب حرف میں یہ اپنی تصویر نظر آئی دربار میں حاضر ہیں پھر اہلِ قلم اپنے کیا حرف و بیاں میں ہے تاثیر، نظر آئی کچھ خواب گلاب ایسے، کچھ زخم عذاب ایسے پھر دل کے کھنڈر میں اک تعمیر نظر آئی اک خواب کے عالم میں دیکھا کیے ہم دونوں لو شمع کی شب ہم کو شمشیر نظر آئی آبا کی زمینوں میں وہ کام کیا ہم نے پھر ان کی زمیں اپنی جاگیر نظر آئی 1988 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ23۔25 6۔ غم کا علاج دُکھ کا مداوا کرے کوئی غم کا علاج دُکھ کا مداوا کرے کوئی جب خواب ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی سو سلسلے خیال کے سو رنگ خواب کے کچھ سوچ کر کسی کی تمنّا کرے کوئی بُجھتی نہیں ہے پیاس کہ جانے کہاں کی ہے پیاسی زمیں پہ ابر سا برسا کرے کوئی آؤں جو ہوش میں تو مئے بے خودی وہ دے گرنے لگوں تو مجھ کو سنبھالا کرے کوئی یارانِ جان و دل کو کوئی جمع پھر کرے جو بھی ہو جس کا حال سنایا کرے کوئی جب دل کو اشک و آہ کے ساماں نہ ہوں بہَم اس بے کسی میں یاد نہ آیا کرے کوئی کیا ہیں یہ لوگ اپنے شجر آپ کاٹ کر دیتے ہیں پھر دُہائی کہ سایہ کرے کوئی جو تِیرہ بخت ہے نہیں کھلتی ہے اس کی آنکھ لاکھ آسماں سے روشنی لایا کرے کوئی اس آدمی کے آپ مسیحا نہ ہوں اگر کس میں ہے دم کہ اب اسے زندہ کرے کوئی "ہے امن اس مکانِ محبت سرائے میں" جب چاہے آئے شوق سے آیا کرے کوئی وہ ہے طلسمِ خوابِ نظارہ کہ ایک بار دیکھے اُسے تو بس اُسے دیکھا کرے کوئی کر کے سپرد اک نگہہ ناز کو حیات دنیا کو دین، دین کو دنیا کرے کوئی چمکیں گے آسمانِ محبت پہ خود علیم لفظوں کے ٹھیکروں کو ستارا کرے کوئی 1997ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ26 7۔ کتنا رفو کر لو گے دل کو،کتنا سی لو گے کتنا رفو کر لو گے دل کو،کتنا سی لو گے ایسے جئے تو یار ہمارے کتنا جی لو گے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ27۔28 8۔ چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے چہرہ ایسا شمع جیسے انجمن پہنے ہوئے جسم ایسا جیسے آئینہ بدن پہنے ہوئے عرش سے تا فرش اک نظّارہ و آواز تھا جب وہ اُترا جامۂ نورِ سخن پہنے ہوئے رات بھر پگھلا دعا میں اشک اشک اس کا وجود تب کہیں یہ صبح نکلی ہے چمن پہنے ہوئے اس حجابِ وصل میں اٹھتے ہیں پردے ذات کے جسم ہوں بے پیرہن بھی پیرہن پہنے ہوئے اُن کی خوشبو اب وطن کی خاک سے آنے لگی وہ جو زنداں میں ہیں زنجیرِ وطن پہنے ہوئے اُٹھ گیا گھبرا کے اور پھر رو پڑا بے اختیار میں نے دیکھا جب وطن اپنا کفن پہنے ہوئے گر کرم تم بھی نہ فرماؤ تو پھر دیکھے یہ کون آئینے ٹوٹے ہوئے گردِ محن پہنے ہوئے 1994 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ29۔31 9۔ دل دعا اور دکھ دیا نہ ہؤا دل دعا اور دکھ دیا نہ ہؤا آدمی کیا ہےپھر ہوا نہ ہؤا دیکھتے رہئے ٹوٹتے رہئے کیا یہاں ہورہا ہے کیا نہ ہؤا لوگ ایسے کبھی دُکھے نہ ہوئے شہر ایسا کبھی بجھا نہ ہؤا ہائے اس آدمی کی تنہائی جس کا اس دنیا میں اک خد انہ ہؤا ہائے وہ دل شکستہ تر وہ دل ٹوٹ کر بھی جو آئینہ نہ ہؤا جو بھی تھا عشق اپنے حال سے تھا ایک کا اجر دوسرا نہ ہؤا اس کو بھی خواب کی طرح دیکھا جو ہمارے خیال کا نہ ہؤا جب سمجھنے لگے محبت کو پھر کسی سے کوئی گلہ نہ ہؤا دل بہ دل گفتگو ہوئی پھر بھی کوئی مفہوم تھا ادا نہ ہؤا کربلا کیا ہے کیا خبر اس کو جس کے گھر میں یہ واقعہ نہ ہؤا اور کیا رشتہء وفا ہو گا یہ اگر رشتہء وفا نہ ہؤا دیکھ کر حسن اس قیامت کا جو فنا ہو گیا فنا نہ ہؤا کوئی تو ایسی بات تھی ہم میں یونہی یہ عہد مبتلا نہ ہؤا ایسے لوگوں سے کیا سخن کی داد حرف ہی جن کا مسئلہ نہ ہؤا اب غزل ہم کسے سنانے جائیں آج غالب غزل سرا نہ ہؤا 1988 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ32 10۔ یہ آرزو ہی رہی آنکھ بھر کے دیکھیں گے!! یہ آرزو ہی رہی آنکھ بھر کے دیکھیں گے!! عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ33۔34 11۔ سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز سائے میں تیرے دھوپ نہائے بصد نیاز اے چھاؤں چھاؤں شخص تیری عمر ہو دراز اے اپنے ربّ کے عشق میں دیوانے آدمی دیوانے تیرے ہم کہ ہؤا تو خدا کا ناز کیوں کر کھلے خدا جو نہ دیکھو وہ آدمی سجدہ کرے زمیں پہ تو ہو عرش پر نماز آیا زباں پہ اسم گرامی ؐ    کہ بس ادھر پرنم ہوئی وہ آنکھ وہ سینہ ہؤا گداز اتنی ہی اس چراغ کی لو تیز ہو گئی جتنی بڑھی ہوائے مخالف میں سازباز اس پر ہے ختم اس سے ہی جاری ہے روشنی اک درخدا نے بند کیا سو کئے ہیں باز ہر جام عشق اس کے ہی لب سے ہے لب بہ لب شائد ابھی یہ راز ہے شائد رہے نہ راز دیتا ہے بادہ ظرف ِقدح خوار دیکھ کر ہر دور کو ہے ساقی کوثر پہ اپنے ناز 1994 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ35۔37 12۔ سایہ سایہ اک پرچم دل پہ لہرانے کا نام سایہ سایہ اک پرچم دل پہ لہرانے کا نام اے مسیحا،تیرا آنا زندگی آنے کا نام حسن،اپنے آئینے میں ناز فرمانے کا نام عشق،ناز ِحسن پر دیوانہ ہوجانے کا نام ایک ساقی ہے کہ اُس کی آنکھ ہے میخانہ خیز دم بہ دم ایک تازہ دم الہام پیمانے کا نام ہر گھڑی نشوں  میں نہلائے جہاں ابرِ شراب اس کی محفل خواب جیسے ایک میخانے کا نام حجرۂ درویش کے موسم سے یہ دل پر کھلا زندگی ہے زندگی پر رنگ برسانے کا نام لاکھ فریادی رہے دیوارِ گریہ پر ہجوم جانے والا اب نہ لے گا لوٹ کر آنے کا نام جس پہ اترا وہ مسیحا دل منارہ دل دمشق استعارے پھول میں خوشبو کو سمجھانے کا نام سب نے رشک خاص سے بھیجے اسے کیا کیا سلام جب بھی آیا اس کے دیوانوں میں دیوانے کا نام اس کی آنکھیں ہیں شبِ تاریکِ وعدہ کا چراغ اس کا چہرہ رات میں اک دن نکل آنے کا نام وہ اندھیروں میں عجب اک روشنی کا خواب ہے وہ اجالوں میں چراغ ِنور لہرانے کا نام جب سے وہ آیا ہے دل کی اور دنیا ہو گئی ورنہ پہلے دل تھا گویا ایک ویرانے کا نام کیوں نہ وہ قامت قیامت ہو کہ ہے اس کا وجود رات کے جانے کا نام اک صبح کے آنے کا نام 1996 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ38 13۔ دنیا ایک کہانی۔۔۔۔۔۔ دنیا اک کہانی۔۔۔۔ ساری دنیا ایک کہانی کہتی ہے چاند نگر میں اک شہزادی رہتی ہے آدھی رات کو چاند زمیں پرآتا ہے جھیل کا پانی آئینہ بن جاتا ہے اک شہزادہ چُپ چُپ دھیان میں جلتا ہے ایک قدم میں سات سمندر چلتا ہے شہزادی جب چاند سے باہر آتی ہے خوشبوؤں میں سکھیوں سنگ نہاتی ہے شہزادہ جب باغ کے اندر آتا ہے شہزادی کو چاند بلا لے جاتا ہے 1990ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ39۔41 14۔ شائد کسی خواب میں کہا کچھ شائد کسی خواب میں کہا کچھ کیا میں نے جواب میں کہا کچھ کیا منزلِ بے وفائی تھی وہ کم تھا جو جواب میں کہا کچھ جب صحبتِ غیر یاد آئی پھر تجھ سے عذاب میں کہا کچھ یعنی وہ سفر سراب کا تھا اور دل نے سراب میں کہا کچھ دنیا کو دکھا سکے گامنہ کیا گر میں نے جواب میں کہا کچھ وہ حالِ خراب پر کھلے گا جو حالِ خراب میں کھلا کچھ مفہوم ہی کچھ اور لوگ سمجھے اور اس نے کتاب میں کہا کچھ کچھ دور تھا ہاتھ ابھی ہوا کا خوشبو نے گلاب میں کہا کچھ اس میں بھی حیا کا رنگ بولا میں نے بھی حجاب میں کہا کچھ جب آنکھ وہ میکدہ سی دیکھی نشے نے شراب میں کہا کچھ قطرے نےسرِآب کچھ کہا تھا موجِ تہِ آب میں کہا کچھ معلوم نہیں کون تھا وہ جس نے گوشِ گلِ خواب میں کہا کچھ 1994 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ42 15۔ وطن کے خواب رکھتے ہیں اور اپنے من میں رہتے ہیں وطن کے خواب رکھتے ہیں اور اپنے من میں رہتے ہیں اِسی مٹی کے شاعر ہیں اسی گلشن میں رہتے ہیں مگر ہم سے زیادہ محترم ہیں جو سیاسی لوگ وطن کا ذکر کرنے کے لیے لندن میں رہتے ہیں عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ43۔44 16۔ نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا نور سے بھر جائے دل وہ رنگ ہے تحریر کا آپ کیا ہو گا جب عالم ہے یہ تقریر کا دو زمانوں میں  مسلسل ہے ہماری زندگی اک زمانہ خواب کا ہے دوسرا تعبیر کا جب ہوئے ہم گوش بر آواز تو ہم پر کھلا ہر نئے عالم میں اِک عالم تری تقریر کا رہ گیا مقتول کی شانِ شہادت دیکھ کر سینۂ شمشیر کے اندر ہی دَم شمشیر کا آپ کی اپنی عدالت کیجئے جو فیصلہ ہاں مگر وہ فیصلہ اِک آخری تقدیر کا کوئی پابندی نہ چاہے ایسی آزادی کہاں خود مری خواہش سے نکلا سلسلہ زنجیر کا دعویٔ اَوج سخن اپنی جگہ لیکن علیمؔ میں بھی تھا غالبؔ کا قائل معتقد تھا میرؔ کا                               1994ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ45۔46 17۔ جب اس کی بدل گئی نگاہیں جب اس کی بدل گئی نگاہیں شاہوں کو ملی نہیں پناہیں جب چھاؤں نہ دیں جہاں پناہیں بانہوں میں  سمیٹ لیں وہ بانہیں دشمن کو خبر نہیں کہ کیا ہیں یہ اَشک یہ آہ کی سپاہیں تُو ساتھ نہ دے اگر ہمارا ہم کیسے یہ زندگی نباہیں اب کج کلہہِ دو جہاں کے آگے گرنے کو سروں سے ہیں کلاہیں آخر ترے پا شکستگاں کو لے آئیں تری طرف ہی راہیں اے شخص تُو جان ہے ہماری مر جائیں اگر تجھے نہ چاہیں سو بار مریں تو تیری خاطر سو بار جئیں تو تجھ کو چاہیں اے شخص کہا ں چلا گیا تُو آجا کہ ترس گئیں نگاہیں ہر صاحبِ دل کو نذر ہیں یہ کچھ اپنی کچھ عہد کی کراہیں 1991ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ47۔48 18۔ ہم نے کھلنے نہ دیا بے سرو سامانی کو ہم نے کھلنے نہ دیا بے سرو سامانی کو کہاں لے جائیں مگر شہر کی ویرانی کو صرف گفتار سے زخموں کا رفو چاہتے ہیں یہ سیاست ہے تو پھر کیا کہیں نادانی کو کوئی تقسیم نئی کر کے چلا جاتا ہے جو بھی آتا ہے مرے گھر کی نگہبانی کو اب کہاں جاؤں کہ گھر میں بھی ہوں دشمن اپنا اور باہر مرا دشمن ہے نگہبانی کو بے حسی وہ ہے کہ کرتا نہیں انساں محسوس اپنی ہی روح میں آئی ہوئی طغیانی کو آج بھی اس کو فراز آج بھی عالی ہے وہی وہی سجدہ جو کرے وقت کی سلطانی کو آج یوسف پہ اگر وقت یہ لائے ہو تو کیا کل تمہیں تخت بھی دو گےاسی زندانی کو صبح کِھلنے کی ہو یا شام بکھر جانے کی ہم نے خوشبو ہی کیا اپنی پریشانی کو وہ بھی ہر آن نیا میری محبت بھی نئی جلوۂ حسن کشش ہے مری حیرانی کو کوزۂ حرف میں لایا ہوں تمہاری خاطر روح پر اترے ہوئےایک عجب پانی کو 1993ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ49۔50 19۔ اک خواب ہے اور مستقل ہے اک خواب ہے اور مستقل ہے وہ شخص نہیں وہ میرا دل ہے وہ رنگ ہے نور ہے کہ خوشبو دیکھو تو وہ کس قدر سجل ہے اے میرے بدن خبر ہے تجھ کو تجھ سے مری روح متصل ہے جلتا تھا وہ اک چراغ تنہا اب اس کا ظہور دل بہ دل ہے کیا دل کو بہار دے گیا ہے وہ زخم جو آج مندمل ہے اک عالمِ وصل میں مسلسل زندہ ہے دل جو منفعل ہے 1995ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ51۔52 20۔ اب نہ خواہش سے نہ تدبیر سے ہو جو کچھ ہو اب نہ خواہش سے نہ تدبیر سے ہو جو کچھ ہو بس ترے پیار کی تقدیر سے ہو جو کچھ ہو دل کے ہر رنگ میں اک عالمِ حیرت دیکھوں آنکھ میری تری تصویر سے ہو جو کچھ ہو پھول سے جس طرح پیمانِ ہوا ہے ایسے نطق میرا تری تقریر سےہو جو کچھ ہو کس کو معلوم ہے کس خواب کی تعبیر ہے کیا خواب میرا  تری تعبیر سے ہو جو کچھ ہو ورنہ یہ لفظ فقط لفظ ہی رہ جاتے ہیں چاہیے جذبہ و تاثیر سے ہو جو کچھ ہو ہم بھی لکھتے ہیں مگر دل میں دعا رکھتے ہیں اے مسیحا تری تحریر سے ہو جو کچھ ہو کوئی مانے بھی تو کیا اور نہ مانے بھی تو کیا نام میرا  تری توقیر سے ہو جو کچھ ہو میں یہ کہتا ہوں محبت سے کرو جو بھی کرو وہ یہ کہتے ہیں کہ شمشیر سے ہو جو کچھ ہو ربط اک میرؔ سے ہر میرؔ کا رہتا ہے علیمؔ تم اسی سلسلۂ میرؔ سے ہو جو کچھ ہو 1994۔1995 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ53۔54 21۔ چہرے میں چراغ جل رہا ہے چہرے میں چراغ جل رہا ہے آئینے میں دن نکل رہا ہے اک نور کی صبح میں نہا کر کپڑے وہ نئے بدل رہا ہے جتنا وہ سنور رہا ہے اتنا آئینے کا دل پگھل رہا ہے وہ قامتِ ناز ہے قیامت دیدار میں دم نکل رہا ہے تنہائی کی بے پناہ چپ میں وہ میرے لہو میں چل رہا ہے اب صبر کی آنکھ کا یہ آنسو دامن کے لئے مچل رہا ہے اک ہاتھ بنا رہا ہے دل کو اک پاؤں ہے دل مسل رہا ہے ہر چھاؤں کوئی لے گیااٹھا کر اب دھوپ میں شہر جل رہا ہے اے بھائی یہ عجیب ہے دنیا کس آگ سے تو بہل رہا ہے کیا سینۂ خاک ہے کہ اس میں سورج کوئی روز ڈھل رہا ہے 1995ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ55۔56 22۔ کل بھی ہم کم کم سہی ملتے تو تھے کل بھی ہم کم کم سہی ملتے تو تھے جیسے وہ موسم سہی ملتے تو تھے خواب جیسی صبح کے آغوش  میں ہم گل و شبنم سہی ملتے تو تھے دھوپ میں دنیا کے دو سائے کہیں دو گھڑی سہی باہم ملتے تو تھے دکھ بھی دیتے تھے خوشی کے ساتھ ساتھ تم نہیں وہ ہم سہی ملتے تو تھے وہ وداع  و وصل کے عالم وہ دن حشر کے عالم سہی ملتے  تو تھے دین و دنیا سے الجھنے کے لئے زلف کے وہ خم سہی ملتے تو  تھے اک محبت کا سماں رہتا تو تھا وہ خوشی یا غم سہی ملتے تو تھے بے اماں جیسے ہیں اب ایسے نہ تھے دم بہ دم ماتم سہی ملتے تو تھے 1995ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ57۔59 23۔ ان دنوں روح کا عالم ہے عجب ان دنوں روح کا عالم ہے عجب جیسے جو حسن ہےمیرا ہے وہ سب جیسے اک خواب  میں نکلا ہوا دن جیسے اک وصل میں جاگی ہوئی شب دل پہ کھلتا ہے اسی موسم میں غم کسے کہتے ہیں اور کیا ہے طرب جس سے ہو جائے جہاں ہو جائے ہے محبت ہی محبت کا سبب جاں فزا ہے جو عطا کرتے رہو بوسۂ لب کی طرح بوسۂ لب پہلے اک ناز بھرا ربط و گریز اس نے پھر بخش دیا سب کا سب تم سا کیا ہو گایہاں خواب کوئی مجھ سا کیا ہو گاکوئی خواب طلب کاش تعبیر میں تم ہی نکلو جب کوئی خواب ہو تعبیر طلب اس کے عشاق جہاں بھی دیکھو ایک ہی نشے میں ڈوبے ہوئے سب سلسلے اس سے مل جائیں تو ٹھیک ورنہ جھوٹے ہیں یہ سب نام و نسب لوگ موجود ہیں اب بھی جن کے منہ سے جو بات نکل جائےادب سایۂ زلف میں مر جاؤں علیمؔ کھینچ لے گر نہ مجھے سایۂ رب 1991ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ60 24۔ کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی لاکھ سمندر پی جائے کوئی لاکھ ستارے چھو جائے کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے کوئی زیست کا ساغر بھرتا ہے کوئی پھر خالی ہو جاتا ہے کوئی لمحے بھر کو آتا ہے کوئی پل بھر میں کھو جاتا ہے کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے 1990ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ61۔63 25۔ ہے عمر کی منزل کیا ہے عمر کی منزل کیا کہتا ہے مرا دل کیا ہر خواب کا حاصل ہے اس خواب کا حاصل کیا آپ آئے مرے گھر میں ہے آپ کے قابل کیا طوفاں کو چھپا لے گا آغوش میں ساحل کیا اک دن یہ محبت بھی ہو جائےگی باطل کیا اک دن یہ مسیحا بھی ہو جائے گا قاتل کیا ہے سایہ طلب میری یہ ہو کہ وہ منزل کیا تم اپنی خوشی دیکھو میں کیا ہوں مرا دل کیا طے ہو گیا سب کچھ پھر اس بحث سے حاصل کیا ساتھی ہو تو سمجھو گے اب دل کی ہے مشکل کیا تقریب میں  اس دل کی ہو جاؤ گے شامل کیا آواز لگاتا ہے دیکھو کوئی سائل کیا گر اذن ادھر کا ہو پھر راہ میں حائل کیا مشکل ہے تو میری ہے اس کے لیے مشکل کیا جب ایسی اداسی ہو پھر کوئی بھی محفل کیا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ64 26۔ میں نے پہلے کبھی۔۔۔۔۔ میں نے پہلے کبھی۔۔۔۔۔ میں نے پہلے کبھی گھر سجایا نہیں جیسے تم آئے ہو کوئی آیا نہیں اب ہیں پاتال تک پیار کی بارشیں میرا جیون کبھی یوں نہایا نہیں وہ مرے سامنے کس طرح آئیں گے عشق جن نے کیا اور نبھایا نہیں 1988ء (نامکمل) عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ65۔66 27۔ چھو کے جب خواب سا بدن آیا چھو کے جب خواب سا بدن آیا شاخِ لب پر گلِ سخن آیا اس کے قامت پہ زیب دیتا تھا جو پہن کر وہ پیرہن آیا ہم اسے روز دیکھنے جائیں آج کیااُس میں بانکپن آیا رنگ تھے اس کے دیکھنے والے جب بہاروں پہ وہ چمن آیا ٹوٹ کر رہ گیا ہوں جب میں وہاں خود گیا اور خود ہی من آیا کوئی نغمہ نگار کیا جانے میرے حصّے میں جو وطن آیا 1990ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ67۔68 28۔ اے روح قطرۂ قطرۂ پگھل آپ کے لئے اے رُوح قطرہ قطرہ پگھل آپ کےلئے اے خامہ سیلِ  خواب میں چل آپ کے لئے ہر شعر ما ورائے سخن ہو کچھ اس طرح اے دل تو لفظ لفظ میں ڈھل آپ کے لئے اپنے معاملے میں حساب اس کا اور ہے سو بار اے زبان سنبھل آپ کے لئے مرتا ہوں آرزو میں کہ اے کاش لکھ سکوں جیسے ہیں آپ ایسی غزل آپ کے لئے مانگے ہے جیسے سجدوں میں دل آج آپ کو تڑپے سوا یہ آج سےکل آپ کے لئے اک نشۂ وجود میں پڑھتے رہیں درود نینوں کے دیپ دل کے کنول آپ کے لئے دونوں جہاں وہیں ہیں جہاں چھاؤں آپ کی اے دل مچل تو صرف مچل آپ کے لئے اس ظرفِ کائنات پہ کتنے کھلیں گے آپ جب اس کا ایک دور ہوپل آپ کے لئے اس دشتِ بے اماں سے نکل آپ کے لئے اے روحِ کائنات بدل  آپ کے لئے 1994ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ69۔70 29۔ ہر آن ایک عالمِ خواب ہو کے رہ گیا ہر آن ایک عالمِ خواب ہو کے رہ گیا اِک شخص موجِ خوں میں شراب ہو کے رہ گیا ایسے وہ اک نگاہ ملی،مل کے رہ گئی پل بھر میں زندگی کا حساب ہو کے رہ گیا اک انتہائے شوق میں اس سے کیا سوال وہ ایسے چپ ہوا کہ جواب ہو کے رہ گیا جب جب میری نگاہ سےوہ چھو گئی نگاہ موج حیا سے رنگ گلاب ہو کے رہ گیا کچھ خواب اپنے گھر کے ہیں کچھ اس کے خواب ہیں باقی تمام جیسے عذاب ہو کے رہ گیا اس گل کی اور ہے مرے دل میں شگفتنی یوں تو جو آیا دل میں گلاب ہو کے رہ گیا میں یہ اٹھاؤں جام کہ میں یہ اٹھاؤں جام اس میکدے میں، مَیں تو خراب ہو کے رہ گیا پانی کہیں سے لاؤ کوئی آسمان کا یہ دہر فلسفوں کا سراب ہو کے رہ گیا کیا تھی محبتوں میں وہ خواہش کہ ناگہاں اک شخص درمیاں میں حجاب ہو کے رہ گیا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ71۔72 30۔ آئینے سے رکھے ہیں حرف وحس میں آئینے سے رکھے ہیں حرف وحس میں کب بول پڑے جانے کون کس میں دیکھے کوئی صبح کے بدن کو کیا پھول کھلے ہوئے ہیں اس میں کس شان سے بولتا ہے کوئی اس عالمِ نیک اور نجس میں لانا وہ کتابِ نور اس کی ہر حال لکھا ہوا ہے جس میں یہ روح کے رنگ سے کھلے گی اک بات ہے حرفِ ملتمس میں میں ذرّہ خاک اور وہ سورج یہ کون سما رہا ہے کس میں 1993 عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ73۔74 31۔ وہ زمیں غالب ؔ کی لکھوں جس میں ہے تکرارِ دوست وہ زمیں غالب ؔ کی لکھوں جس میں ہے تکرارِ دوست میں بھی کھینچوں قامتِ جاناں یہ ہے اصرارِ دوست دیکھ کر قدِ قیامت سوچ کر زُلفِ دراز اپنی ہی رفتا ر کے نشّے میں ہے رفتارِ دوست ہاتھ اٹھے ہوں دعا کو اس طرح اس کا بدن قتلِ عاشق کو بہت ہے قامتِ تلوار دوست ہائے وہ کاجل بھری آنکھیں وہ ان کا دیکھنا ہائے وہ نورِ حیا سے آتشیں رخسارِ دوست جیسے ہم آغوشیٔ جاں کے زمانے ہوں قریب ان دنوں ایسے نظر آتے ہیں کچھ آثارِ دوست اِک محبت سے محبت ہی جنم لیتی رہی ہم نے اس کو یار جاناجس کو دیکھا یارِ دوست روح وتن نے ہر نفس اِک آنکھ چاہی تب کھلا دیکھنا آساں ہے مشکل ہے بہت دیدارِ دوست سب سخن کے جام بھرتے ہیں اسی سرکار سے جس پہ اب جتنا کھلے میخانۂ  گفتارِ دوست بس یونہی موجیں بھریں یہ طائرانِ خدّوخال بس یونہی دیکھا کریں ہم گلشنِ گلزارِ دوست 1996ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ75۔77 32۔ ا س عہد میں کرے نہ کوئی بات میرؔ  کی ا س عہد میں کرے نہ کوئی بات میرؔ  کی کم ہو گئی ہے لفظ میں طاقت ضمیر کی سودا نہ کر کہ لفظ میں طاقت ہے بے شمار ہے چار دن کی بات امیر و سفیر کی تو صاحب سخن ہے تو خلوت پہ ناز کر مت جا وہاں جہاں ہو صدارت وزیر کی ایسا بھی کیا یہ نشّہ ِ دنیا کہ آدمی فریاد سن نہ پائے خود اپنے ضمیر کی واں یہ زمانہ کیا ہے یہ ابنِ زمانہ کیا وہ اورسلطنت ہے خدائے کبیر کی اے میرے ظرف اور بھی ہو جا کشادہ تر جب بات دوست کے ہو سرشت و خمیر کی گر ختم ہو تو کیسے فضا دار و گیر کی نیت ہی اور کچھ ہے گروہِ شریر کی ہر آن ایک حشر قیامت ہے زندگی پہنچے اگر مدد نہ مرے دستگیر کی تیرا یہ تیر مجھ کو لگے بھی تو میں ہزار لیکن وہ شست تیری طرف ہے جو تیر کی قیدِ قفس کو ڈھونڈتی پھرتی ہے ملک ملک وہ زندگی جو اب ہے وطن کے اسیر کی روشن ہوا جو ایک نئی زندگی کے نام لوگوں نے اس دئیے میں بھی ظلمت اسیر کی وہ شمعِ بزم کون تھا پروانے کون تھے جو سن رہے تھے رات غزل اس فقیر کی وہ اوج شاعری ہو کہ ہو موجِ زندگی تم کو دعائیں خوب لگیں اپنے پیر کی 1997ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ78 33۔ دیکھنے کو جس کو رہتی ہے تمنّا مستقل دیکھنے کو جس کو رہتی ہے تمنّا مستقل سامنے جب آگیا وہ نا گہاں کیسا لگا؟ عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ79۔80 34۔ نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس نوروں نہلائے ہوئے قامتِ گلزار کے پاس اِک عجب چھاؤں میں ہم بیٹھے رہے یار کے پاس اس کی ایک ایک نگہ دل پہ پڑی ایسی کہ بس عرض کرنے کو نہ تھا کچھ لبِ اظہار کے پاس یوں ہم آغوش ہوا مجھ سے کہ سب ٹوٹ گئے جتنے بھی بت تھےصنم خانۂ  پِندار کے پاس تم بھی اے کاش کبھی دیکھتےسنتے اس کو آسماں کی ہے زباں یارِ طرحدار کے پاس یہ محبت تو نصیبوں سے ملا کرتی ہے چل کے خود آئے مسیحا کسی بیمار کے پاس یونہی دیدار سے بھرتا رہےیہ کاسۂ دل یونہی لاتا رہےمولا ہمیں سرکار کے پاس پھر اسے سایۂ دیوار نے اٹھنے نہ دیا آکے اک بار جو بیٹھا تیری دیوار کے پاس تجھ میں ایک ایسی کشش ہے کہ بقولِ غالبؔ خود بخود پہنچے ہے گل گوشۂ  دستار کے پاس تیرا سایۂ رہے سر پر تو کسی حشر کی دھوپ سرد پڑ جائے جو آئے بھی گنہگار کے پاس تو اگر خوش ہے یہاں مجھ سے تو پھر حشر کے دن ایک تیری ہی شفاعت ہو گنہگار کے پاس 1992ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ81۔82 35۔ ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا ربطِ غم اور خوشی ہی ٹوٹ گیا گھر میں جو تھا سبھی ہی ٹوٹ گیا جس کے دل ٹوٹنے کی باتیں تھیں آج وہ آدمی ہی ٹوٹ گیا جب وہ اک شخص درمیاں آیا خواب وہ اس گھڑی ہی ٹوٹ گیا پھر اماں کون دے اسے جس کا رشتۂ بندگی ہی ٹوٹ گیا جب سے دیکھا نہیں ہے وہ قامت نشّۂ زندگی ہی ٹوٹ گیا کس بھروسے پہ اب جنوں کیجئے عشوۂ دلبری ہی ٹوٹ گیا ٹوٹتے ٹوٹتے محبت کا رقصِ دیوانگی ہی ٹوٹ گیا 1994ء۔1995ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  نگارِصبح کی اُمید میں صفحہ83۔85 36۔ شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے شکستہ حال سا بے آسرا سا لگتا ہے یہ شہر دل سے زیادہ دکھا سا لگتا ہے ہر اک کے ساتھ کوئی واقعہ سا لگتا ہے جسے بھی دیکھو وہ کھویا ہوا سا لگتا ہے زمیں ہے سو وہ اپنی ہی گردشوں میں کہیں جو چاند ہے سو وہ ٹوٹا ہؤا سا لگتا ہے مرے وطن پہ اترتے ہوئے اندھیروں کو جو تم کہو، مجھے قہرِ خدا سا لگتا ہے جو شام آئی تو پھر شام کا لگا دربار جو دن ہؤا تو وہ دن کربلا سا لگتا ہے یہ رات کھا گئی ایک ایک کر کے سارے چراغ جو رہ گیا ہے وہ بجھتا ہوا سا لگتا ہے دعا کرو کہ میں اس کے لئے دعا ہو جاؤں وہ ایک شخص جو دل کو دعا سا لگتا ہے تو دل میں بجھنے سی لگتی ہے کائنات تمام کبھی کبھی جو مجھے تُو بُجھا سا لگتا ہے جو آ رہی ہے صدا غور سے سنو اس کو کہ اس صدا میں خدا بولتا سا لگتا ہے ابھی خرید لیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے مگر ضمیر کا سودا برا سا لگتا ہے یہ موت ہے یا کوئی آخری وصال کے بعد عجب سکون میں سویا ہوا سا لگتا ہے ہوائےِ رنگِ دو عالم میں جاگتی ہوئی لَے علیمؔ ہی کہیں نغمہ سرا سا لگتا ہے 1993ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری ویراں سرائے کا دیا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا  انتساب اُس کے نام جس کا نام دیا جلائے صبح وشام یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ11۔15  دئیے کی کہانی

چاند چہرہ ستارہ آنکھیں 1974ء میں پہلی بار رونماہوا تھا۔آپ نے اُسے جس محبت اورشوق سے ہجوم در ہجوم دیکھا اور دیکھ رہے ہیں۔اُس کے لیے جہاں میں اپنے رب کا شکر گزار ہوں وہاں آپ کے لیے بھی میرا سینہ دعائے خیر سے بھرا ہوا ہے۔مجھے یقین ہوا کہ سچے جذبوں اور خوابوں کی نمو پذیری کا عمل اُس طرح دوسری روحوں میں پھلتا اور پھولتا چلا جاتاہے جس قوت اور محبت سے اُس نے روحِ شاعر میں جلوہ گری کی ہو۔طبیعتوں کے فرق اور مزاج اورذوق کی بلندی وپستی سے اکتسابی اور جذبی فرق ضرور پیدا ہوتا ہے ،مگر یہ اور بات ہے۔اصل بات یہ ہے کہ محسوس کرنے والے کو محسوس کرنے والے محسوس کر ہی لیتے ہیں۔ ویران سرائے کا دیا دو استعاروں کا ایک گہرا اور بلیغ استعارہ ہے۔ویران سرائے انسان ہے ،اُ س کا وجودہے،گھرہے،کائنات ہے اورہروہ شے اور ہر وہ قدر ہے جس کا اندرون اور بیرون اپنے دائرے اورمرکزئیے سے ہٹ گیا ہے اور اُس کا ہونا ہونے کی طرح نہیں ہے۔ دیا اللہ نور السمٰوات والارض ہے ،دیا اس کا نور علیٰ نور آدمی ہے،دل ہے،عشق ہے،حسن ہے،عقل ہے،ایک طاقت اور اکائی ہے۔دیا روشنی اور توانائی ہے،دیا قامت کی قیامت بھی ہےاوراُس کی ادائے حیا بھی۔دیا حسنِ ظاہر کا ایک دلپذیر تماشا بھی ہے اورحسنِ باطن کا ایک جاں گداز کشف بھی۔یہ ایک شاعر کی وجدانی اور وارداتی کہانی کا مثالیہ بھی ہے اور اشاریہ بھی۔یہ زمینی اور ماورائی حقیقتوں اور رشتوں سے جڑنے اورہم آہنگ ہونے کی ایک والہانہ کہانی ہے۔یہ میری کہانی ہےاوراس طرح یہ ہر اُس آدمی کی کہانی ہے جو دل میں کوئی دیا جلائے ہوئے مسلسل کسی حسن میں گم ہوتے رہنے کا تمنائی ہے۔         میرا ایمان ہے کہ شاعر اگر حقیقتًا شاعر ہو اور اندر باہر زندہ ہو تو کوئی لفظ نہ مردہ ہوتا ہے اور نہ واماندہ ۔لفظ کا نور ظہور شخصیت اورذات کی شنیدنی ،دیدنی اورچشیدنی حالتوں ،کیفیتوں اورذائقوں سے اپنے اپنے دائروں،سطحوں اورمنطقوں سے ماورائیت کی جانب جست خیز ہوتا ہے۔جتنے گہراؤمیں یہ اضافت لگتی ہے اُتنے ہی گہراؤ میں لفظ بولتا ہےاوراپنے سیاق و سباق اور اپنی روایت میں بظاہر وہی ہونے کے باوجود بہ باطن وہی نہیں ہوتا بلکہ ایک نئی شان،ایک نئی قدرت اور نئے جہانِ معنی کا مظہر ہوجاتا ہے،اورجب یوں ہوتا ہے تو بولنے والا اپنے لفظ سے پہچانا جاتا ہے اورلفظ بولنے والے کی شناخت بن جاتا ہے ۔ایسی حالت میں فطری شاعر کو زبان وبیان اور اسلوب وہیئت کے گورکھ دھندوں میں الجھنے کی ضرورت نہیں پڑتی ،کیونکہ وہ خود اپنی جگہ زبان وبیان اور اسلوب وہیئت کا منہ بولتا آئینہ بن جاتا ہے اور ہر سانچے کو بظاہر وہی رکھتے ہوئے اپنی باطنی تجلی کے انکشاف سے اُسے اور سے اور بنا دیتا ہے اوریہی اصل شاعر کا منصب ہے او یہی مقصود ہے۔         میرا یہ بھی ایمان ہے کہ کسی بھی نظرئیے یا خیال کا محض رسمی تکراری عمل،نظرئیے یا خیال کی شہادت کے لیے کافی نہیں ہوتا جب تک کہ وہ انسانی وجود میں اپنی مسلسل اور متواتر یقینی پیدائش کا عملی ثبوت نہ کرتا چلا جائے۔وہم اور وسوسے کی اپنی تنہائیاں ہیں ۔علم اور یقین کی اپنی محفل آرائیاں ہیں۔خودی او رانا،صحرائے وجود کی خواب سراب بُھول بُھلیّاں ہیں۔سپردگی اور فنا گلزارِ وجود کی مہتاب گلاب رونمائیاں ہیں۔جب ذرے کی کائنات اپنی قوتوں میں یکجائی ،وحدت ،تعاون وتوازن اور سپردگی کے فعلی اعلان کی حد میں پہنچ گئی ہے تو پھر اس جوہر ِکامل کی تسلیم میں اب جھگڑا کیا رہ جاتا ہے جس نے بہت پہلے ایک زندہ ،توانا اورزبردست خدا کے ہمیشہ ہونے کا حتمی اور آخری یقین دیا اور وہ تعاون و توازن ،فدائیت وفنائیت اورسپردگی کے راستے سے اپنے رب میں ایسے پیوند ہوا کہ مقامِ عبدیت کی انتہا ہوگیا۔اُس آخری انسان کی جستِ آخر پر ذرے کی فعلی گواہی ،اس جوہر کامل کی قولی اور فعلی شہادت لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی تصدیق کے سوا اور ہو بھی کیا سکتی تھی سومادی اور ماورائی زبان سے یہ طے ہوا کہ انا نہیں بلکہ فنا،خودی نہیں بلکہ سپردگی ہی بقائے ذات وحیات کا محورِ اصل اور دائمی منشور ہے۔         ذرے کی اثباتیت نے ابلیسی قوتوں کو اپنے اندر توڑدیا ہے،مگرٹوٹتے ٹوٹتے یہ قوتیں ایک آخری جنگ کا الاؤ بھڑکا رہی ہیں ان کے غصے اور نفرتیں آتشیں ذروں کی صورت کسی دم پھٹنے ہی والے ہیں اور یہ انسان کو دوبارہ غار کی جانب دھکیلنا چاہتی ہے ،مگر اس اسفل آدم کی شکست ہمیشہ کی طرح اس کی قسمت ہے ۔میں افضل مگر مظلوم آدم کے لشکر کا بہادر سپاہی ہوں ۔میں ابلیسی خودی اور انا کے مقابلے پر آدم کا یقین ،سپردگی اوردعا کا زادِسفر لے کے نکلا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ رحمت کے بادل اسی ابلیسی آگ کو پھر ٹھنڈا کرنے کے لیے تلے کھڑے ہیں۔میرا چاند چہرہ اب دعا دعا چہرہ ہوگیا ہے،میری ستارہ آنکھیں اب حیا حیا آنکھیں ہوگئی ہیں۔میں کسی نظرئیے یا خیال کے رسمی و تکراری عمل کا شاعر نہیں۔مٰں اپنے مسلسل ظہور اور اپنی متواتر یقینی پیدائش کا شاعر ہوں اورمجھے یقین ہے کہ ایسے شاعر کے لیے فنا کا قانون منسوخ ہوجاتا ہے۔

یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ55 37۔ ویران سرائے کا دیا ہے ویران سرائے کا دیا ہے جو کون و مکاں میں جل رہا ہے یہ کیسی بچھڑنے کی سزا ہے آئینے میں چہرہ رکھ گیا ہے خورشید مثال شخص کل شام مٹی کے سپرد کر دیا ہے تم مر گئے حوصلہ تمھارا زندہ ہوں یہ میرا  حوصلہ ہے اندر بھی زمیں کے روشنی ہو مٹی میں چراغ رکھ دیا ہے میں کون سا خواب دیکھتا ہوں یہ کون سے ملک کی فضا ہے وہ کون سا ہاتھ ہے کہ جس نے مجھ آگ کو خاک سے لکھا ہے رکّھا تھا خلا ء میں پاؤں میں نے رستے میں ستارہ آگیا ہے شاید کہ خدا میں اور مجھ میں اِک جست کا اور فاصلہ ہے گردش میں ہیں کتنی کائناتیں بچہ مرا پاؤں چل رہا ہے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ19۔20 38۔ کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا میں کیسا زندہ آدمی تھا  اِک شخص نے مجھ کو وار دیا اِک سبز شاخ گلاب کی تھی اِک دنیا اپنے خواب کی تھا وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس  کے لئے سب کچھ ہار دیا یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں مرا حال نہیں اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سُکھ نے آزار دیا میں کھلی ہوئی ایک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ہیں میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا بھی اُس عشق نے زندہ رہنے کا مجھے ظرف دیا پِندار دیا میں روتا ہوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ہوں اُن لوگوں پر جن لوگوں نے  مرے لوگوں کو آزار دیا وہ یار ہوں یا محبوب مرے یا کبھی کبھی ملنے والے اِک لذّت سب کے ملنے میں وہ زخم دیا یا پیار دیا مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے میں خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ و بار دیا 1976ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ21۔22 39۔ خوشبو تھا اور بدن سے تنگ تھا  میں خوشبو تھا اور بدن سے تنگ تھا  میں جب شعلۂ رنگ رنگ تھا میں سائے پہ پڑا ہوا تھا سایہ تعبیر پہ اپنی دنگ تھا میں میں اپنی دلیل لانے والا ہارا تو عجب ترنگ تھا میں تم نے مجھے اُس طرح نہ جانا جو عالمِ خواب رنگ تھا میں ہاتھوں سے کچھ اپنے دوستوں کے وہ پھول پڑے کہ سنگ تھا میں گزری ہوئی رات کی کہانی وہ شمع تھی اور پتنگ تھا میں پھر دہر پہ کیوں نہ پھیل جاتا قامت پہ جب اپنے تنگ تھا میں ترسی ہوئی روح پر زمیں کی برسی ہوئی اِک امنگ تھا میں اے موسمِ ذات تو بتانا انسان کی کیسی جنگ تھا میں 1974ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ23۔24 40۔ تم ایسی محبت مت کرنا تم ایسی محبت مت کرنا مرے خوابوں میں چہرہ دیکھو اور میری قائل ہو جاؤ تم ایسی محبت مت کرنا مرے لفظوں میں وہ بات سنو جو بات لہو کی چاہت ہو پھر اس چاہت میں کھو جاؤ تم ایسی محبت مت کرنا یہ لفظ مرے یہ خواب مرے ہر چند یہ جسم و جاں ٹھہرے پر ایسے  جسم و جاں تو نہیں جو اور کسی کے پاس نہ ہوں پھر یہ بھی تو ممکن ہے ، سوچو یہ لفظ مرے ،یہ خواب مرے سب جھوٹے ہوں تم ایسی محبت مت کرنا گر کرو محبت تو ایسی جس طرح کوئی سچائی کی رَوہر جھوٹ کو سچ کر جاتی ہے 1974ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ25۔26 41۔ عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں عجیب تھی وہ عجب طرح چاہتا تھا میں وہ بات کرتی تھی اور خواب دیکھتا تھا میں وصال کا ہو کہ اُس کے فراق کا موسم وہ لذّتیں تھیں کہ اندر سے ٹوٹتا تھا میں چڑھا ہوا تھاوہ نشّہ کہ کم نہ ہوتا تھا ہزار بار اُبھرتا تھا  ڈوبتا تھا میں بدن کا کھیل تھیں اس کی محبتیں لیکن جو بھید جسم کے تھے جاں سے کھولتا تھا میں پھر اس طرح کبھی سویا نہ اس طرح جاگا کہ رُوح نیند میں تھی اور جاگتا تھا میں کہاں شکست ہوئی اور کہاں صلہ پایا کسی کاعشق کسی سے نباہتا تھا میں میں اہلِ زر کے مقابل میں تھا فقط شاعر مگر میں جیت گیالفظ ہارتا تھا میں 1976ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ27۔28 42۔ باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے باہر کا دھن آتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے ہر دُھوپ میں جو مجھے سایہ دے وہ سچا سایہ گھر میں ہے پاتال کے دُکھ وہ کیا جانیں جو سطح پہ ہیں ملنے والے ہیں ایک حوالہ دوست مرے اور ایک حوالہ گھر میں ہے مری عمر کے اِک اِک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے تو ننّھا مُنّا ایک دیا میں ایک سمندر اندھیَارا تو جلتے  جلتے بجھنے لگا اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے کیا سوانگ بھرے روٹی کے لئے عزّت کے لئے شہرت کے لئے سنو شام ہوئی اب گھر کو چلو کوئی شخص اکیلا گھر میں ہے اِک ہجر زدہ بابل پیاری ترے جاگتے بچوں سے ہاری اے شاعر کس دنیا میں ہے تُو تری تنہا دنیا گھر میں ہے دنیا میں کھپائے سال کئی آخر میں کھلا احوال یہی وہ گھر کا ہو یا باہر کا ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے 1977ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ29۔30 43۔ کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے کوچۂ عشق سے کچھ خواب اٹھا کر لے آئے تھے گدا تحفۂ نایاب اٹھاکر لے آئے کون سی کشتی میں بیٹھیں ترےبندے مولا اب جو دنیا کوئی سیلاب اٹھا کر لےآئے ہائے وہ لوگ گئے چاند سے ملنے اور پھر اپنے ہی ٹوٹے ہوئےخواب اٹھا کر لے آئے ایسا ضدی تھا مرا عشق نہ بہلا پھر بھی لوگ سچ مچ کئی مہتاب اٹھا کر لے آئے سطحِ ساحل نہ رہی جب کوئی قیمت ان کی ہم خزانوں کو تہہِ آب اٹھا کر لے آئے جب ملا حسن بھی ہرجائی  تو اس بزم سے ہم عشقِ آوارہ کو بیتاب اٹھا کر لے آئے اس کو کم ظرفی رندانِ گرامی کہیئے نشّے چھوڑ آئے مئے ناب اٹھا کر لے آئے انجمن سازیٔ اربابِ ہنر کیا لکھیۓ ان کو وہ اور اُنھیں احباب اٹھا کر لے آئے ہم وہ شاعر ہمیں لکھنے لگے جب لوگ تو ہم گفتگو کے نئے آداب اٹھا کر لے آئے خواب میں لذّتِ یک خواب ہے دنیا  میری اور مرے فلسفی اسباب اٹھا کر لے آئے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ31۔33 44۔ دعا دعا چہرہ دعا دعا وہ چہرہ حیا حیا وہ آنکھیں صبا صبا وہ زلفیں چلے لہو گردش میں رہے آنکھ میں دل میں بسے مرے خوابوں میں جلے اکیلے پن میں ملے ہر اک محفل میں دعا دعا وہ چہرہ کبھی کسی چلمن کے پیچھے کبھی درخت کے نیچے کبھی وہ ہاتھ پکڑتے کبھی ہوا سے ڈرتے کبھی وہ بارش اندر کبھی وہ موج سمندر کبھی وہ سورج ڈھلتے کبھی وہ چاند نکلتے کبھی خیال کی رو میں کبھی چراغ کی لو میں دعا دعا وہ چہرہ کبھی بال سکھائے آنگن میں کبھی مانگ نکالے درپن میں کبھی چلے پون کے پاؤں میں کبھی ہنسے دھوپ میں چھاؤں میں کبھی پاگل پاگل نینوں میں کبھی چھاگل چھاگل سینوں میں کبھی پھولوں پھول وہ تھالی میں کبھی دئیوں بھری دیوالی میں کبھی سجا ہوا آئینے میں کبھی دعا بنا وہ زینے میں کبھی اپنے آپ سے جنگوں میں کبھی جیون موج ترنگوں میں کبھی نغمہ نور فضاؤں میں کبھی مولا حضور دعاؤں میں کبھی رکے ہوئے کسی لمحے میں کبھی دکھے ہوئے کسی چہرے میں وہی چہرہ بولتا رہتا ہوں وہی آنکھیں سوچتا رہتا ہوں وہی زلفیں دیکھتا رہتا ہوں دعا دعا وہ چہرہ حیا حیا وہ آنکھیں صبا صبا وہ زلفیں 1984ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ34 45۔ یہ جیون باندھ لیا تم سے اب اور کہیں ہمیں جانا نہیں یہ جیون باندھ لیا تم سے اب اور کہیں ہمیں جانا نہیں کسی اور کو حال سنانانہیں کِسی اور کو دل یہ دِکھانا نہیں عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ35۔36 46۔ تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ تو اپنی آواز میں گم ہے میں اپنی آواز میں چپ دونوں بیچ کھڑی ہے دنیا آئینۂ الفاظ میں چپ اوّل اوّل بول رہے تھے خواب بھری حیرانی میں پھر ہم دونوں چلے گئے پاتال سے گہرے راز میں چپ خواب سرائے ذات میں زندہ ایک تو صورت ایسی ہے جیسے کوئی دیوی بیٹھی ہو حُجرۂ رازو نیاز میں چپ اب کوئی چھو کے کیوں نہیں آتا اُدھر سرے کا جیون انگ جانتے ہیں پر کیا بتلائیں لگ گئی کیوں پرواز میں چپ پھر یہ کھیل تماشہ سارا کِس کے لئے اور کیوں صاحب جب اس کے انجام میں چُپ ہے جب اس کے آغاز میں چپ نیند بھری آنکھوں سے چوما دیئےنے سورج کو اور پھر جیسے شام کو اب نہیں جلنا کھینچ لی اس انداز میں چپ غیب سمے کے گیان میں پاگل کتنی تان لگائے گا جتنے سُر ہیں ساز سے باہر اس سے زیادہ ساز میں چپ 1979ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ37۔38 47۔ وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے وہ میرا خواب اگر خواب کے برابر ہے تو یعنی مہر بھی مہتاب کے برابر ہے وفا کی بات کہاں بات تھی مروّت کی سو اب یہ جنس بھی نایاب کے برابر ہے کوئی نہیں ہے کہیں صرف میں ہی میں زندہ یہ ذائقہ مجھے اسباب کے برابر ہے خود اپنی قامتِ زیبا ہے میرا اِک اِک یار ہر اِک رقیب کے احباب کے برابر ہے طوافِ ذات میں جو شمع تھا وہ پروانہ بُجھا تو شعلۂ بے تاب کے برابر ہے جو عشق کھول نہ پائے قبائے ذات کے بند زمانہ ساز ہے آداب کے برابر ہے اگر ہوں کچّے گھروندوں میں آدمی آباد تو ایک ابر بھی سیلاب کے برابر ہے شکستۂ ناؤ ہو اور لوگ بھی شکستہ ہوں تو ایک لہر بھی گرداب کے برابر ہے یہ ساحلوں سے خزانہ چُرانے والے لوگ سمجھ رہے ہیں تہہِ آب کے برابر ہے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ39۔40 48۔ تُمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے لگے تُمہارے بعد بھی کچھ دن ہمیں سہانے لگے پھر اُس کے بعد اندھیرے دیئے جلانے لگے چمک رہا تھا وہ چاند اور اس کی محفل میں سب آنکھیں آئینے چہرے شراب خانے لگے خلاء میں تھا کہ کوئی خواب تھا کہ خواہش تھی کہ اس زمین کے سب شہر شامیانے لگے نہ جانے کون سے سیّارے کا مکیں تھا رات کہ یہ زمین و زماں سب مجھے پرانے لگے فضائے شام، سمندر، ستارہ جیسے لوگ وہ بادبان کھلے ، کشتیاں چلانے لگے بس ایک خواب کی مانند یہ غزل میری بدن سنائے اسے روح گنگنانے لگے ہزاروں سال کے انساں کا تجربہ ہے جو شعر تو پل میں کیسے کھلے وہ جسے زمانے لگے سیاہ رات کی حد میں اگر نکل آئے دیئے کے سامنے خورشید جھلملانے لگے ہر اک زمانہ زمانہ ہے میرؔ صاحب کا کہا جو ان نے تو ہم بھی غزل سنانے لگے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ41۔42 49۔ پل سب چھاؤں دھوپ کی آنکھیں ہیں کچھ جلی ہوئیں کچھ بجھی ہوئیں اِدھر اُدھر بس ایک دیا اور چپ چادر سی تنی ہوئی باطن ظاہر، ظاہر باطن اصل میں ایک ہی لمحہ ہے کچھ ہونےوالا ہو گزرا کچھ ہونے والا ہونا ہے عکس بھی زندہ اور ہماری آوازیں بھی زندہ ہیں اس مرنے سے کیا ہوتا ہے آگے ہم پائندہ ہیں پیچھے کتنا رستہ چھوڑا آگے کتنا رستہ ہے سمے میں بہتے آئے ہیں اور سمے میں بہتے رہنا ہے اس سمے کے چھ پل بیت گئے اس سمے کا اِک پل باقی ہے بس یہ اِک پل جو بیت گیا تو پھر ہستی آفاقی ہے 1980ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ43۔44 50۔ ایک میں بھی ہوں کلہ داروں کے بیچ ایک میں بھی ہوں کُلہ داروں کے بیچ میرؔ صاحب کے پرستاروں کے بیچ روشنی آدھی اِدھر آدھی اُدھر اِک دیا رکّھا ہے دیواروں کے بیچ میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا آئنہ خانے تھے نظّاروں کے بیچ ہے یقیں مجھ کو کہ سیّارے پہ ہوں آدمی رہتے ہیں سیّاروں کہ بیچ کھا گیا انسان کو آشوبِ معاش آگئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ میں فقیر ابنِ فقیر ابنِ فقیر اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ اپنی ویرانی کے گوھر رولتا رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ اہلِ دل کے درمیا ں تھے میؔر تم اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ آنکھ والے کو نظر آئے علیمؔ اِک محمد ؐمصطفےٰ ساروں کے بیچ 1978ء   عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ45۔46 51۔ اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے اب تو یوں خانۂ تنہائی میں محبوب آئے جیسے مجذوب کے گھر دوسرا مجذوب آئے اس سے کہنے کو گئے تھے کہ محبّت ہے بہت اس کو دیکھا تو شکستہ دل و محجوب آئے آگے کیا ہو یہ سخن آج تو یوں ہے جیسے اپنے نام اپنا ہی لکّھا ہوا مکتوب آئے ایک دربار کی تصویر میں کچھ اہلِ قلم وقت کی آنکھ نے دیکھا کہ بہت خوب آئے دُکھ سے پھر جاگ اُٹھی آنکھ ستارے کی طرح اور سب خواب ترے نام سے منسوب آئے ہم نے دل نذر کیا اہلِ محبت کے حضور اُن نے قامت یہ بڑھایا ہے کہ مصلوب آئے میں تری خاک سے لپٹا ہوا اے ارضِ وطن ان ہی عشّاق میں شامل ہوں جو معتوب آئے 1980ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ47۔48 52۔ جب لفظ کبھی ادب لکھو گے جب لفظ کبھی ادب لکھو گے یہ لفظ مرا نسب لکھو گے لکھا تھا کبھی یہ شعر تم نے اب دُوسرا شعر کب لکھو گے جتنا بھی قریب جاؤ گے تم انساں کو عجب عجب لکھو گے ہر لمحہ یہاں ہے ایک ’ہونا‘ کس بات کا کیا سبب لکھو گے انسان کا ہو گا ہاتھ اس میں اللہ کاجو غضب لکھو گے جب رات کو نیند ہی نہ آئے پھر رات کو کیسے شب لکھو گے بچے کےبھی دل سے پو چھ لینا کیا ہے وہ جسے طرب لکھو گے صدیوں میں وہ لفظ ہے تمہارا اک لفظ جو اپنا اب لکھو گے میں اپنے وجود کا ہوں شاعر جو لفظ لکھوں گا سب لکھو گے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ49۔50 53۔ چہرہ ہوا میں اور مری تصویر ہوئے سب چہرہ ہوا میں اور مری تصویر ہوئے سب میں لفظ ہوا مجھ میں ہی زنجیر ہوئے سب بنیاد بھی میری درو دیوار بھی میرے تعمیر ہوا میں کہ یہ تعمیر ہوئےسب بتلاؤ تو یہ آب و ہوا آئی کہاں سے کہنے کو تو تم لہجہ و تاثیر ہوئے سب ویسے ہی لکھو گے تو مرا نام ہی ہوگا جو لفظ لکھے وہ مری جاگیر ہوئے سب مرتے ہیں مگر موت سے پہلے نہیں مرتے یہ واقعہ ایسا ہے کہ دلگیر ہوئے سب وہ اہلِ قلم سایۂ رحمت کی طرح تھے ہم اتنے گھٹے اپنی ہی تعزیر ہوئے سب اس لفظ کی مانند جو کُھلتا ہی چلا جائے یہ ذات و زماں مجھ سے ہی تحریر ہوئے سب تنا سخن میؔر نہیں سہلِ خدا خیر نقّاد بھی اب معتقدِ میر ہوئےسب 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ51۔52 54۔ جو مہرباں کوئی چہرہ  نظر  بھی آتا ہے جو مہرباں کوئی چہرہ  نظر  بھی آتا ہے تو دل میں گزرے زمانوں کا ڈر بھی آتا ہے ہرے بھرے میرے خوابوں کو روندنے والو خدائے زندہ زمیں پر اتر بھی آتا ہے وہ پیاس ہے کہ دعا بن گیا میرا وجود کب آئے گا جو کوئی ابرِتر بھی آتا ہے کبھی جو عشق تھا اب مکر ہو گیا میرا سمجھ سکے نہ کوئی یہ ہنر بھی آتا ہے ابھی چلا بھی نہ تھا  اور رک گئے پاؤں یہ سوچ کر کہ میرا ہمسفر بھی آتا ہے ملے گا اور مرے سارے زخم بھر دے گا سنا تھا راہ میں ایسا شجر بھی آتا ہے یہ میرا عہد یہ میری دکھی ہوئی آواز میں آگیا جو کوئی نوحہ گر بھی آتا ہے کوئی چرا کے مجھے کیسےچھپ سکے کہ علیؔم لہو کا رنگ میرے حرف پر بھی آتا ہے 1975ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ58 57۔ ستارہ و ماہتاب لکھنا کہ گرمیٔ آفتاب لکھنا ستارہ و ماہتاب لکھنا کہ گرمیٔ آفتاب لکھنا ہمیں تمہارے ہی نام لکھنا عذاب لکھنا کہ خواب لکھنا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ59۔60 58۔ آوارگی پہ ہم نے بہت دن گزر کیا آوارگی پہ ہم نے بہت دن گزر کیا جب تھک گئے تو پھر اسی صحرا کو گھر کیا رنجِ خزاں سے موجِ ہوائے بہار تک وہ خواب سلسلہ تھا کہ آنکھوں کو تر کیا اس کا بدن تھا جامِ شراب اور لب بہ لب ہم تشنۂ لب تھے ہم نے بھی عالم دگر کیا تھی ایک زندگی کے برابر وہ ایک رات اس رات کو بسر کیا اور تا سحر کیا ہم پہ تھا ایک عشق کا سایا کہ ساری عمر اپنی ہی روشنی میں کیا جو سفر کیا تم لوگ وہ کہ چھوڑ گئے کربلا کے بیچ ہم لوگ وہ کہ جن نے تمھیں معتبر کیا کچھ کم نہیں تھا پہلے بھی پامال میرا شہر یہ کس کے پاؤں نے اسے پامال تر کیا کیسی ہوا میں نکلا تھا یہ کاروانِ گل آخر خزاں کے ہاتھ لگا رخ جدھر کیا ہم شمعِ حرف پر مٹے اور کیمیا ہوئے تب دوسروں کے دل پر سخن نے اثر کیا لکھی ہے  میؔر درد کے مصرعے پہ یہ غزل اور اس غزل کو ہم نے اسی نام پر کیا 1981ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ61۔62 59۔ آزادی آزادی میری قید میں رہنے والوں کا میں نے خود دروازہ کھولا تھا انجانے اور جانے پن کی بات نہیں بس یونہی شاید گہری نیند سے اٹھنا آزادی ہے آزادی کے ہاتھ کی طاقت اور سبھی ہاتھوں سے بڑی ہے کتنی رات پڑی ہے صبح تلک اک دو شاید اور نہ ہوں جتنی دیر تلک جینا ہے اتنی دیر تلک کوئی شام دھنک اسی ایک زمیں پر کئی فلک سایوں کی طرح ماؤں کی طرح اِک ٹھنڈک دیں اور جب آنکھ کھلے تو آزادی کے نام کھلے میں جب قید میں ہوں تو میں نے اپنی قید میں رہنے والوں کا دروازہ کیسے کھولا تھا 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ63۔65 60۔ دل کی پاتال سرا سے آئی دل کی پاتال سرا سے آئی دولتِ درد دعا سے آئی ہے یہ ایمان کے اس کی آواز سلسلہ وار خدا سے آئی ایسا لگتا ہے کہ اس کی صورت عالمِ خواب نما سے آئی چلتے ہیں نقشِ قدم پر اس کے جس کو رفتا صبا سے آئی یونہی قامت وہ قیامت نہ ہوا ہر ادا ایک ادا سے آئی حسن اس کا تھا قیامت اس پر وہ قیامت جو حیا سے آئی ہر صدا آئی پر اس کی آواز صرف تسلیم و رضا سے آئی دل وہ آنسو کے پلک سے ٹپکا غم وہ بارش کے گھٹا سے آئی اب کے پامال زمینوں پہ بہار اور ہی آب و ہوا سے آئی جان بیمار میں اس کے آخر اس کے ہی دستِ شفا سے آئی ہم میں اک اور بقا کی صورت ہم پہ اک اور فنا سے آئی ہم نے ہر شے کو الگ سے دیکھا ہم میں یہ بات جدا سے آئی چاک کرتے تھے گریباں اپنا روشنی بندِ قبا سے آئی یہ ادا عشق و وفا کی ہم میں اک مسیحا کی دعا سے آئی آئی جو لہر نئی دل میں علیمؔ اس کی بخشش سے عطا سے آئی 1983ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ66 61۔ جس میں لہو کی آگ نہ آئے لفظ وہ کیسے زندہ ہو جس میں لہو کی آگ نہ آئے لفظ وہ کیسے زندہ ہو میرے خواب چُرانے والو میرے دکھوں سے بھی گزرو عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ67۔69 62۔ اک شخص سماں بدل گیا ہے اک شخص سماں بدل گیا ہے مٹی کا جہاں بدل گیا ہے بندہ وہ خدا نہیں تھا لیکن ہر جسم میں جاں بدل گیا ہے وہ آخری آدمی خدا کا سب لفظ و بیاں بدل گیا ہے پاؤں میں تھی آدمی کے کب سے زنجیرِ گراں بدل گیا ہے ہر نام و نسب کے دور میں وہ سب نام و نشاں بدل گیا ہے کہتے ہیں شہید کربلا کے مفہومِ زیاں بدل گیا ہے ہر زندہ چراغ ہے اسی کا وہ نور کہاں بدل گیا ہے پروانے کہاں یہ سننے والے اب دور میاں بدل گیا ہے آواز یہ اس مکاں سے آئی وہ شخص مکاں بدل گیا ہے نیچے سے زمیں نکل گئی ہے اوپر سے زماں بدل گیا ہے کس خلوتِ خاص میں گیا وہ کپڑے بھی یہاں بدل گیا ہے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ70 63۔ جتنی دیر ملوں میں اس سے جتنی دیر ملوں میں اس سے اتنی دیر تو یوں لگتا ہے سمے سے لیکر انت سمے تک سارا جیون میرے پاس عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ71۔72 64۔ مٹی میں تھا خمیر ترے ناز سے اٹھا مٹی میں تھا خمیر ترے ناز سے اٹھا پھر ہفت آسماں مری پرواز سے اٹھا انسان ہو  کسی بھی صدی کا کہیں کا ہو یہ جب اٹھا ضمیر کی آواز سے اٹھا صبحِ چمن میں ایک یہی آفتاب تھا اس آدمی کی لاش کو اعزاز سے اٹھا سو کرتبوں سے سے لکھا گیا ایک ایک لفظ لیکن یہ جب اٹھاکسی اعجاز سے اٹھا اے شہسوارِ حسن یہ دل ہے یہ میرا دل یہ تیری سرزمیں ہے قدم ناز سے اٹھا میں پوچھ لوں کہ کیا ہے میرا جبرو اختیار یارب یہ مسٔلہ کبھی آغاز سے اٹھا وہ ابر شبنمی تھا کہ نہلا گیا وجود میں خواب دیکھتا ہوا الفاظ سے اٹھا شاعر کی آنکھ کا وہ ستارہ ہوا علیمؔ قامت میں جو قیامتی انداز سے اٹھا 1980ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ73۔75 65۔ کمال آدمی کی انتہا ہے کمال آدمی کی انتہا ہے وہ آئندہ میں بھی سب سے بڑا ہے کوئی رفتا ر ہو گی روشنی کی مگر وہ اس سے بھی آگے گیا ہے جہاں بیٹھے صدائے غیب آئی یہ سایہ بھی اسی دیوار کا ہے مجسم ہو گئے سب خواب میرے مجھے میرا خزانہ مل گیا ہے حقیقت ایک ہے لذّت میں لیکن حکایت سلسلہ در سلسلہ ہے یونہی حیراں نہیں ہیں آنکھ والے کہیں اک آئینہ رکھا ہوا ہے وصالِ یار سے پہلے محبت خود اپنی ذات کا اک راستہ ہے سلامت آئینے میں ایک چہرہ شکستہ ہو تو کتنے دیکھتا ہے چلو اب فیصلہ چھوڑیں اسی پر ہمارے درمیاں جو تیسرا ہے رکھو سجدے میں سر اور بھول جاؤ کہ وقتِ عصر ہے اور کربلا ہے کسی بچے کی آہیں اٹھ رہی ہیں غبار اک آسماں تک پھیلتا ہے اندھیرے میں عجب اک روشنی ہے کوئی خیمہ دیا سا جل رہا ہے ہزاروں آبلے پائے سفر میں مسلسل قافلہ اک چل رہا ہے جدھر دیکھوں میری آنکھوں کے آگے اُنہی نورانیوں کا سلسلہ ہے یہ کیسے شعر تم لکھنے لگے ہو عبیدؔاللہ تمہیں کیا ہو گیا ہے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ76 66۔ بتا ہی دے گاکہ میں کون تھا کہاں گزرا بتا ہی دے گاکہ میں کون تھا کہاں گزرا وہ میرا صاحب  وحی کتاب ہو گا ہی عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ77۔79 67۔ جب اپنا سر پاتال ہوا جب اپنا سُر پاتال ہوا تب وحیِ نفس انزال ہوا اک وصل کے خواب میں کھو جانا یہ وصل ہوا کہ وصال ہوا تھا دکھ اپنی پیدائش کا جو لذت میں انزال ہوا کن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں کن قدموں سے پامال ہوا بِن عشق اسے کیونکر جانو جو عشق سراپا حال ہوا اس وقت کا کوئی انت نہیں یہ وقت تو ماہ و سال ہوا وہی ایک خلش نہ ملنے کی ہمیں ملتے دسواں سال ہوا ہر اچھی بات پہ یاد آیا اک شخص عجیب مثال ہوا ہر آن تجلی ایک نئی لکھ جانا میرا کمال ہوا کس بات کو کیا کہتا تھا مَیں تم کیا سمجھے یہ ملال ہوا تم کیسی باتیں کرتے ہو اےیار صغیر ملال ہوا کل رات سمندر لہروں پر دیوانوں کا دھمّال ہوا اک رانجھا شہر کراچی میں اک رانجھا جھنگ سیال ہوا 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ80 68۔ میں ایک دریا میں وسطِ دریا تھا میں ایک دریا میں وسطِ دریا تھا دوسرے میں کنارِ دریا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ81۔82 69۔ وہ رات بےپناہ تھی اور میں غریب تھا وہ رات بےپناہ تھی اور میں غریب تھا وہ جس نے یہ چراغ جلایا عجیب تھا وہ روشنی کہ آنکھ اٹھائی نہیں گئی کل مجھ سے میرا چاند بہت ہی قریب تھا دیکھا مجھے تو طبع رواں ہو گئی میری وہ مسکرا دیا تو میں شاعرادیب تھا رکھتا نہ کیوں میں روح و بدن اس کے سامنے وہ یوں بھی تھا طبیب وہ یوں بھی طبیب تھا ہر سلسلہ تھا اس کا خدا سے ملا ہوا چپ ہو کہ لب کشا ہو بلا کا خطیب تھا موجِ نشاط و سیلِ غمِ جاں تھے ایک ساتھ گلشن میں نغمہ سنج عجب عندلیب تھا میں بھی رہا ہوں خلوت جاناں میں ایک شام یہ خواب ہے یا واقعی مَیں خوش نصیب تھا حرفِ دعا و دستِ سخا وت کے باب میں خود میرا تجربہ ہےوہ بے حد نجیب تھا دیکھا ہے اس کو خلوت و جلوت میں بار ہا وہ آدمی بہت ہی عجیب و غریب تھا لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ اُس کو دکھا نہ پاؤ وہ ایسا حبیب تھا 1983ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ83۔84 70۔ سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا سخن میں سہل نہیں جاں نکال کر رکھنا یہ زندگی ہے ہماری سنبھال کر رکھنا کھلا کہ عشق نہیں ہےکچھ اور اس کے سوا رضائے یار جو ہو اپنا حال کر رکھنا اسی کا کام ہے فرشِ زمیں بچھا دینا اسی کا کام ستارے اچھال کر رکھنا اسی کا کام ہے اس دکھ بھرے زمانے میں محبتوں سے مجھے مالا مال  کررکھنا بس ایک کیفیتِ دل میں بولتے رہنا بس ایک نشے میں خود کو نہال کر رکھنا بس ایک قامت زیبا کہ خواب میں رہنا بس ایک شخص کو حدّ مثال کر رکھنا گزرنا حسن کی نظارگی سےپل بھر کو پھر اس کو ذائقہ لازوال کر رکھنا کسی کہ بس میں نہیں تھا کسی کہ بس میں نہیں بلندیوں کو سدا پائمال کر رکھنا 1982ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ85۔86 71۔ ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھتی ایسی تیز ہوا اور ایسی رات نہیں دیکھتی لیکن ہم نے مولا جیسی ذات نہیں دیکھی اس کی شانِ عجیب کا منظر دیکھنے والاہے اِک ایسا خورشید کہ جس نے رات نہیں دیکھی بستر پر موجود رہے اور سیرِ ہفت افلاک ایسی کسی پر رحمت کی برسات نہیں دیکھی اس کی آل وہی جو اس کے نقشِ قدم پر جائے صرف ذات کی ہم نے آلِ سادات نہیں دیکھی ایک شجر ہے جس کی شاخیں پھیلتی جاتی ہیں کسی شجر میں ہم نے ایسی بات نہیں دیکھی اِک دریائے رحمت ہے جو بہتا جاتا ہے یہ شانِ برکات کسی کے سات نہیں دیکھی شاہوں کی تاریخ بھی ہم نے دیکھی ہے لیکن اس کے در کے گداؤں والی بات نہیں دیکھی اس کے نام پہ ماریں کھانا اب اعزاز ہمارا اور کسی کی یہ عزت اوقات نہیں دیکھی صدیوں کی ا س دھوپ چھاؤں میں کوئی ہمیں بتلائے پوری ہوتی کون سی اس کی بات نہیں دیکھی اہلِ زمیں نے کونسا ہم پر ظلم نہیں ڈھایا کون سی نصرت ہم نے اس کے ہات نہیں دیکھی 1983ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ87۔88 72۔ گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے گزرتی ہے جو دل پر دیکھنے والا فقط تو ہے اندھیرے میں اجالا دھوپ میں سایہ فقط تو ہے گدائے دہر کا کیا ہے اگر یہ در نہیں وہ ہے ترے در کے فقیروں کی تو کل دنیا فقط تو ہے تو ہی دیتا ہے نشّہ اپنے مظلوموں کو جینے کا ہر اِ ک ظالم کا نشّہ تو ڑنے والا فقط تو ہے وہی دنیا وہی اک سلسلہ ہے ترے لوگوں کا کوئی ہو کربلا اس دیں کا رکھوالا فقط تو ہے ہواؤں کے مقابل بجھ ہی جاتے ہیں دئیے آخر مگر جس کے دئیے جلتے رہیں ایسا فقط تو ہے عجب ہو جائے یہ دنیا اگر کھل جائے انساں پر کہ اس ویراں سرائے کا دیا تنہا فقط تو ہے ہر اِک بے چارگی میں بے بسی میں اپنی رحمت کا جو دل پر ہاتھ رکھتا ہے خداوندا فقط تو ہے مرے حرف و بیاں میں آئینوں میں آبگینوں میں جو سب چہروں سے روشن تر ہے وہ چہرہ فقط تو ہے 1984ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ89۔91 73۔ پڑھ اس طرح اسم اپنے رب کا پڑھ اس طرح اسم اپنے رب کا سینے میں رکھا ہودرد سب کا پلکوں سے کہو کہ خاک اٹھائیں بھائی یہ مقام ہے ادب کا دنیا کے جو خواب دیکھتا تھا وہ شخص تو  مر چکا ہے کب کا میں سجدے میں رات رو رہا تھا پوچھا نہیں اس نے کچھ نسب کا تجھ کو تو خبر ہے میرےمعبود کب ہاتھ بڑھا کہیں طلب کا مولا میں ترا اداس شاعر پیسہ کوئی بھیک میں طرب کا بے لفظ گیا تھا مانگنے میں اِک ملک مجھے دے دیا ادب کا سینے پہ اسی نے ہاتھ رکھا جب کوئی نہیں تھا جاں بلب کا میں اس کا کلام پڑھ رہا ہوں اُمّی ہے جو علم کے لقب کا جاتا نہیں شعر کی طرف میں مقتول ہوں اس کے حرفِ لب کا اِک تو کہ بلند ہر سبب سے ورنہ تو سبب ہے ہر سبب کا 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ92 74۔ یہ خواب ہے تو کوئی اصل ِ خواب ہوگا ہی یہ خواب ہے تو کوئی اصل ِ خواب ہوگا ہی ہر اک سوال کا آخر جواب ہو گا ہی عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ93۔94 75۔ منظرِ ہفت سما آنکھ میں جب خوب آیا منظرِ ہفت سما آنکھ میں جب خوب آیا شور عالم میں ہوا پھر کوئی مجذوب آیا یہ زمیں غیر کو آباد نہیں کرتی ہے جب بھی اس دل میں آیا تو کوئی محبوب آیا اتنا دنیا  میں کہاں تھا قدِ بالا وہ شخص ہم تو عاشق ہوئے جب سامنے مصلوب آیا اس میں کیا ہے نہیں معلوم ، مگر دیکھتے ہیں جو گیا اس کی طرف اس سے ہی منسوب آیا کھل گئی آنکھ مگر خواب نہ ٹوٹا پھر بھی کوئی بتلائے کہ یہ عاشق ہے کہ محبوب آیا 1979ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ95۔98 76۔ اپنا احوال سنا کر لے جائے اپنا احوال سنا کر لے جائے جب مجھے چاہے منا کر لے جائے میں نہ جاؤں جو وہاں تو مجھ کو میری تنہائی اٹھا کر لے جائے وہ مجھے بھول گیا ہے شاید یاد آجاؤں تو آکر لے جائے ہوں خفا اس سے مگر اتنا نہیں خود نہ جاؤں گا بلا کر لے جائے خالی ہاتھوں کو ملے گی خوشبو جب ہوا چاہے چرا کر لے جائے در خزانے کا کہیں بند نہیں یہ خزانہ  کوئی آکر لے جائے دھوپ  میں بیٹھوں تو ساتھی میرا اپنے سائے میں اٹھا کر لے جائے تجھ کو بھی کوچۂ عشّاقاں میں اپنے مولا سے دعا کر ،لے جائے کوئی قاتل نہیں گزرا ایسا جس کو تاریخ بچا کر لے جائے اِک دیا ایسا بھی دیکھا میں نے ظلمتِ شب کو ہٹا کر لے جائے کون محبوب ہوا ہے ایسا اپنے عاشق کو بلا کر لے جائے پھر سے آجائے کوئی چپکے سے کہیں باتوں میں لگا کر لے جائے اس کے ہمراہ چلا جاتا ہوں جو مرے دل کو دکھا کر لے جائے کوئی عیسیٰ مرے معبود کہ جو تیرے مردوں کو جِلا کر لے جائے ایسی دیوانگی و حیرانی آئینہ کوئی دکھا کر لے جائے سامنے سب کے پڑی ہے دنیا ذات میں جو بھی سما کر لے جائے ایسے ملتا نہیں مٹی کو دوام بس خدا جس کو بنا کر لے جائے ہو سخن ور کوئی ایسا پیدا جو سخن میرا چرا کر لے جائے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ99۔100 77۔ ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا ملے ہو تم تو بچھڑ کر اداس مت کرنا کسی جدائی کی ساعت کا پاس مت کرنا محبتیں تو خود اپنی اساس ہوتی ہیں کسی کی بات کو اپنی اساس مت کرنا کہ برگ برگ بکھرتا ہےپھول ہوتے ہی برہنگی کو تم اپنا لباس مت کرنا بلند ہو کہ ہی ملنا جہاں تلک ملنا اس آسماں کو زمیں پر قیاس مت کرنا جو پیڑ ہو تو زمیں سے ہی کھینچنا پانی کہ ابر آئے گا کوئی یہ آس مت کرنا یہ کون لوگ ہیں کیسے یہ سربراہ ہوئے خدا کو چھوڑ کر ان کے سپاس مت کرنا 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ101۔102 78۔ اگلی محبتوں کے فسانے کہاں تلک اگلی محبتوں کے فسانے کہاں تلک گزرے ہوئے گزاروں زمانے کہاں تلک آئے ہو تم تو اب نئے خواب و خیال دو لکھوں وہی میں لفط پرانے کہاں تلک میرے لہو میں جن کا کوئی ذائقہ نہیں دیکھوں وہی میں خواب سہانے کہاں تلک ہر روز ایک عشق نیا چاہتا ہے دل بولوں میں جھوٹ سچ کے بہانے کہاں تلک ایسی زمیں جس کا کوئی آسماں نہیں ایسی زمیں کے گاؤں ترانے کہاں تلک اک نام ہے کہ جس کے بنے ہیں ہزار نام روشن رہے وہ نام نہ جانے کہاں تلک آؤ کہ ان میں پھر کوئی چہرہ اتار لیں ترسیں گے اب یہ آئینہ خانے کہاں تلک دُکھتا ہوں میں کہ ہے ہوسِ آدمی بہت اُگلے گی یہ زمیں خزانے کہاں تلک کہتا ہے مجھ سے لکھا ہوا میرا حرف حرف سچّا ہوں میں تو کوئی نہ مانے کہا ں تلک 1975ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ103۔104 79۔ کبھی ملیں پھر کبھی ملیں پھر اُسی طرح اُسی جگہ اُنھی لوگوں اُنھی گلیوں، بازاروں میں اُنھی لمحوں میں اور اُنھی لمحوں کی لذّت میں آئینہ وار اِک عکس سے دوسرا عکس لپٹتا جائے وہی خوش گمانیوں کے چاند وہی بد گمانیوں کے بھنور وہی مدّو جزر رفاقتوں کے وہی عذاب رقابتوں کے میں کسی سے کوئی کہانی کہوں تم کسی سے کوئی کہانی کہو اور اصل میں ایک کہانی ہو جو اپنی ہو وہیں ملیں پھر اُسی طرح اُسی جگہ عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ105۔106 80۔ آغاز کرو بدن سے اور پھر آغاز کرو بدن سے اور پھر جاں تک میری جاں نچوڑ جاؤ یہ کیا کہ ملو تو ایک پل کو صدیوں میں اکیلا چھوڑ جاؤ رستوں میں قدم قدم ملوں گا تم عشق کے جس بھی موڑ جاؤ آئینہ پگھل کہ جڑ رہا ہے آؤ مجھے پھر سے توڑ جاؤ میں خواب ہوں اصل ڈھونڈتا ہوں تم اصل سے خواب جوڑ جاؤ 1980ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ107۔108 81۔ یاد یاد کبھی کبھی کوئی یاد کوئی بہت پرانی یاد دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے شام کو جیسے تارا نکلے صبح کو جیسے پھول جیسے دھیرے دھیرے زمیں پر روشنیوں کا نزول جیسے روح کی پیاس بجھانے اُترے کوئی رسول جیسے روتے روتے اچانک ہنس دے کوئی ملول کبھی کبھی کوئی یاد کوئی بہت پرانی یاد دل کے دروازے پر ایسے دستک دیتی ہے 1984ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ109۔111 82۔ وصالیہ وصالیہ سب بارشیں ہو کہ تھم چکیں تھیں روحوں میں دھنک اتر رہی تھی میں کواب میں بات کر رہا تھا وہ نیند میں پیار کر رہی تھی احوال ہی اور ہو رہے تھے لذّت  میں وصال رو رہے تھے بوسوںمیں دھلے دھلائے دونوں نشّوں میں لپٹ کر سو رہے تھے چھوٹا سا حسین سا وہ کمرہ اِک عالمِ خواب ہو رہا تھا خوشبو سے گلاب ہو رہا تھا مستی سے شراب ہو رہا تھا وہ چھاؤں سا چاندنی سا وہ بستر ہم رنگ نہا رہے تھے جس پر یوں تھا کہ ہم اپنی ذات اندر تھے اپنا ہی ایک اور منظر سیراب محبتوں کے دھارے باہم تھے وجود کے کنارے موضوعِ سخن، سخن تھے سارے عالم ہی عجیب تھے ہمارے جاگے وہ لہو میں سلسلے پھر تن من کے وہی تھے ذائقے پھر تھم تھم کے برس برس گئے پھر پاتال تک ہو گئے ہرے پھر جاری تھا وہ رقصِ ہمکناری نکلی نئی صبح کی سواری ایسا لگا کائنات ساری اِس آن تو ہے فقط ہماری جب چاند مرا نہا کے نکلا میں دل کو دیا بنا کے نکلا کشکولِ دعا اٹھا کے نکلا شاعر تھا صدا لگا کے نکلا دریا وہ سمندروں سے گہرے وہ خواب گلاب ایسے چہرے سب زاویوں ہو گئے سنہرے آئینوں میں جب وہ آکے ٹھہرے 1985ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ112 83۔ دیئے کا کام ہے جلنا جلتے جلتے جل جانا دیئے کا کام ہے جلنا جلتے جلتے جل جانا اُس کے بعد بھی رات رہے تو اور کسی کے نام عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ113۔115 84۔ وحشت اسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا وحشت اسی سے پھر بھی وہی یار دیکھنا پاگل کو جیسے چاند کا دیدار دیکھنا اس ہجرتی کو کام ہوا ہے کہ رات دن بس وہ چراغ اور وہ دیوار دیکھنا پاؤں میں گھومتی ہے زمیں آسماں تلک اِس طفلِ شیر خوار کی رفتار دیکھنا یارب کوئی ستارۂ امید پھر طلوع کیا ہو گئے زمیں کے آثار دیکھنا لگتا ہے جیسے کوئی ولی ہے ظہور میں اب شام کو کہیں کوئی مے خوار دیکھنا اس وحشتی کا حال عجب ہے کہ اُس طرف جانا بھی اور جانبِ پندار دیکھنا دیکھا تھا خواب شاعرِ مومن نے اس لیے تعبیر میں ملا ہمیں تلوار دیکھنا جو دل کو ہے خبر کہیں ملتی نہیں خبر ہر صبح اِک عذاب ہے اخبار دیکھنا میں نے سنا ہے قُربِ قیامت کا ہے نشاں بے قامتی پہ جُبّہ و دستار دیکھنا صدیاں گزر رہی ہیں مگر روشنی وہی یہ سر ہے یا چراغ سرِ دار دیکھنا اس قافلے نے دیکھ لیا کربلا کا دن اب رہ گیا ہے شام کا بازار دیکھنا دو چار کے سوا یہاں  لکھتا غزل ہے کون یہ کون ہیں یہ کس کے طرفدار دیکھنا 1980ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ116 85۔ اِ ک آنکھ ابھی ٹپکی  مجھ میں اِک چہرہ بلند ہوا اِ ک آنکھ ابھی ٹپکی  مجھ میں اِک چہرہ بلند ہوا اِس روزو شب کی چادر میں دن عید کا بھی پیوند ہوا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ117۔119 86۔ اور سب زندگی پہ تہمت ہے اور سب زندگی پہ تہمت ہے زندگی آپ اپنی لذت ہے میرے اور میرے اس خدا کے بیچ ہے اگر لفظ تو محبت ہے اک سوال اور اک سوال کے بعد انتہا حیرتوں کی حیرت ہے عہد شیطان کا خدا کے ساتھ سرکشی ہے مگر عبادت ہے بھید جانے کوئی مگر کیسے یار کو یار سے جو نسبت ہے خواب میں ایک شکل تھی میرے تُو تو اُس سے بھی خوبصورت ہے پہلے مجھ کو تھی اور اب تیری میری تنہائی کو ضرورت ہے گھٹتا بڑھتا رہا میرا سایہ ساتھ چلنے میں کتنی زحمت ہے زندگی کو میری ضرورت تھی زندگی اب مری ضرورت ہے لکھنے والے ہی جان سکتے ہیں لفظ لکھنے میں جو قیامت ہے تھی کبھی شاعری کمال مرا شاعری اب مری کرامت ہے 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ120 87۔ قید ہی شرط ہے اگر یہ بھی مری سزا کرو قید ہی شرط ہے اگر یہ بھی مری سزا کرو وصل کی قید دو مجھے ہجر سے اب رہا کرو بات کسی سے بھی کرو بات کسی کی بھی سنو بیٹھ کے کاغذوں پہ تم نام وہی لکھا کرو یار ہمارا ایلیا ہم سے اٹھا لیا گیا بیٹھے اب اپنی ذات میں ایلیا ایلیا کرو 1979ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ144 88۔ ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلےہی ایک کہانی ختم ہوئی انجام سے پہلےہی یعنی ایک ستارہ ٹوٹا شام سے پہلے ہی چلی ہوا کے دوش پہ لیکن دُکھوں کی ماری لہر ساحل سے پھر لوٹ گئی آرام سے پہلے ہی وقت کے آذر ہاتھ اٹھا اصنام تراشی سے دبی ہوئی ہے یہ  دنیا  اوہام سے پہلے ہی مولا ہمّت دیتا ہے تو چلتے ہیں ورنہ کھڑی ہوئی ہے اِک گردش ہر گام سے پہلے ہی یا میخانے پی جاتے تھے شاعر رند ترے یا نشّے سے چور ہوئے ہیں جام سے پہلے ہی 1981ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ123۔124 89۔ گیت گیت ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلاب ہوئے اپنا ہی تو ہے جیون اپنا تاروں سے سجا آنگن اپنا خوشیوں سے بھرا دامن اپنا اس رُت کو آؤ سلام کریں جس رُت میں ہم مہتاب ہوئے ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلاب ہوئے پتّوں پہ ہنسے شبنم جیسے خوشبو کا کھلے پرچم جیسے کچھ بول اٹھے موسم جیسے پل بھر کو سہی پر دیدہ و دل سیراب ہوئے، شاداب ہوئے ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلاب ہوئے جو کھلے نہیں وہ کِھل جائیں سب بچھڑے ساتھی مل جائیں یارب یہ زخم بھی سل جائیں ہم کہہ تو سکیں اس موسم میں سب پورے اپنے خواب ہوئے سب سونی آنکھیں چراغ ہوئیں سب خالی چہرے گلا ہوئے ایک لکیر اجالے کی تن سے من تک پھیل گئی 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ125۔126 90۔ گیت گیت ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل ہی نہیں یہ جیون پیاس کا صحرا ہےاور سر پہ کوئی بادل ہی نہیں جانے کے لئے ہر رُت آئی ، رہنے کو ہے بس یہ تنہائی اِک عمر کا روگ نہ ہو جائے یہ پل دو پل کی سچّائی سدا یہ آنکھیں سپنے دیکھیں  آنے والے زمانوں کے ہم راہی ایسی راہوں کے جو چہرہ آنکھوں میں آئے سو خواب نئے دکھلا جائے جو ساتھ چلےوہ ملے نہیں جو بچھڑ گئے  وہ یاد آئے منزل منزل ڈھونڈ رہے ہیں خواب اپنے ارمانوں کے ہم راہی ایسی راہوں کے جن کی کوئی منزل ہی نہیں یہ جیون پیاس کا صحرا ہے اور سر پر کوئی بادل ہی نہیں 1976ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ127۔128 91۔ گیت گیت ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب تیرے خواب، تیری آنکھوں جیسے اِنھی گلابوں جیسے چومے تیرے ہاتھ مہندی والی رات ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب اِک اِک بوند میں جیون رکھ دیں برکھا رکھ دیں ساون رکھ دیں آجا ترے ہاتھوں میں مہندی لگائیں ہری ہری ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب اس خوشبو میں ایک کہانی کچھ جانی سی، کچھ انجانی آجا ترے ہاتھوں میں مہندی لگائیں ہری ہری ہری ہری مہندی کے نیچے سرخ گلاب تیرے خواب ، تیری آنکھوں جیسے اِنہی گلابوں جیسے چومے تیرے ہاتھ مہند ی والی رات 1976ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ129۔130 92۔ گیت گیت مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا جیون اگن کو اور بڑھایا اور بڑھایا بولے گا تو میرے لہو میں ہریالی آجائے گی چھو لے گا تو یہ مٹّی پھر زندہ ہو جائے گی پر میں نے ایسا کب پایا مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا ایک دیا میں جلاؤں گی تو ایک دیا وہ جلائے گا دیئے کی لَو سے لَو مل جائے گی گھر روشن ہو جائے گا بٹ گیا لیکن سایا سایا مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا اک دو سچّے سُر لگ جائیں تو جیون سکھی ہو جاتا ہے کتنی دیر کا سوکھا ساگر سایوں میں کھو جاتا ہے ایسا بادل کوئی نہ آیا مرے گھر کیسا بادل برسنے آیا جیون اگن کو اور بڑھایا اور بڑھایا 1976ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ131۔132 93۔ چہرے چہرے کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں پل بھر کو آنکھ میں آتے ہیں اور برسوں دل میں رہتے ہیں چھاؤں چھاؤں جیسے چہرے سچّے خوابوں جیسے چہرے ننّھے بچّوں جیسے چہرے چہرے موم کی گڑیوں جیسے اوس نہائی پریوں جیسے شاخ پہ بیٹھی چڑیوں جیسے (نامکمل) 1984ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ132 94۔ تن مٹّی ، من مٹّی ، جیون مٹّی تن مٹّی ، من مٹّی ، جیون مٹّی جیون سے آگے جیون کا درپن مٹّی عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ133۔134 95۔ چاند جب دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے چاند جب دیکھا سمندر کے کنارے ہم نے اور پھیلا دیئے کچھ اپنے کنارے ہم نے اِک عجب شور مچائی ہوئی تنہائی کے ساتھ خود میں دُہرائے سمندر کے اشارے ہم نے اتنے شفّاف کے تھے روح و بدن آئینہ اصل کے اصل میں دیکھے تھے نظّارے ہم نے رات کیا ٹوٹ کے آئی تھی کہ اُس دامن سے جھولیوں بھر لئے آنکھوں میں ستارے ہم نے لَوٹ آنے سے ڈریں اور نہ لَوٹیں تو دُکھیں وہ زمانے جو ترے ساتھ گزارے ہم نے کُھلتا جاتا ہے کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے آئینے سامنے رکھیں ہیں ہمارے ہم نے 1980ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ135۔136 96۔ ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے ہجر کرتے یا کوئی وصل گوارا کرتے ہم بہرحال بسر خواب تمھارا کرتے ایک ایسی بھی گھڑی عشق میں آئی تھی کہ ہم خاک کو ہاتھ لگاتے تو ستارا کرتے اب تو مل جاؤ ہمیں تم کہ تمھاری خاطر اتنی دُور آگئے دُنیا سے کنارا کرتے محوِ آرائشِ رُخ ہے وہ قیامت سرِ بام آنکھ اگر آئینہ ہوتی تو نظاراکرتے ایک چہرے میں تو ممکن نہیں اتنے چہرے کس سے کرتے جو کوئی عشق دوباراکرتے جب ہے یہ خانۂ دل آپ کی خلوت کے لئے پھر کوئی آئے یہاں کیسے گوارا کرتے کون رکھتا ہے اندھیرے میں دیا، آنکھ میں خواب تیری جانب ہی ترے لوگ اشارا کرتے ظرفِ آئینہ کہاں اور ترا حُسن کہاں ہم ترے چہرے سے آئینہ سنوارا کرتے 1986ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ137۔138 97۔ پہلا شاعر میرؔ ہوا  اور اس کے بعد ہوں میں پہلا شاعر میرؔ ہوا  اور اُس کے بعد ہوں میں پہلے وہ تقدیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں اکیلا اکیلا میں چاہوں تو کیسے رہائی ہو پہلے وہ زنجیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں اُس کا چہرہ دیکھ رہے تھے آئینہ اور میں پہلے وہ تصویر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں صرف انا ہی لکھواتی ہے ذات کی ہر سچّائی میں پہلے تحریر ہوا اوراُس کے بعد ہوں میں آگے آگے بھاگنے کا ہے ایک سبب یہ بھی پہلے پیدا تیر ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں حُسن کو اک شمشیر بناتے میں نے عمر بِتائی تب قامت شمشیر ہوا اوراُس کے بعد ہوں میں سات سمندر سے گہری ہے شاعر کی گہرائی کہتے ہیں اِک میرؔ  ہوا اورا ُس کے بعد ہوں میں مجھ سے آگے جانے والی میری ہی تنہائی اس سے وہ تعمیر ہوا اورا ُس کے بعد ہوں میں بات بڑے ہی دکھ کی لیکن کتنی سچّی اچھی پہلے آیا میرؔ ہوا اور اُس کے بعد ہوں میں جس کا ماننے والا ہوں وہ خوب  ہےجاننے والا لیکن کیا تشہیر ہوا اوراُس کے بعد ہوںمیں 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ139۔140 98۔ سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات سمجھنے والے سمجھ لیں گے استعارۂ ذات کھلا ہے قِبلا نما پرچم ستارۂ ذات چھلک کے جائے تو جائے کہاں وجود مرا ہر ایک سمت ہے پھیلا ہوا کنارۂ ذات بس ایک عشق تجلّی دکھائے جاتا ہے نکل رہا ہے مسلسل مرا شمارۂ ذات وہ کم نظر اسے آشوبِ ذات کہتے ہیں کہ ایک ذات تلک ہے مرا گزارۂ ذات بنانے والے نے اس شان سے بنایا اُسے جہاں سے دیکھو نظر آئے ہے منارۂ ذات ہے ایک شمع سے روشن یہ آئینہ خانہ تو کیاہے آئینہ خانہ بجز نظارۂ ذات اُتر رہا ہے مرے قلب پر وہ عالمِ حرف کہ جیسے وحیٔ خفی ہو مرا شرارۂ ذات 1978ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ141۔143 99۔ ملتا جلتا تھا حال میر ؔ کیساتھ ملتا جلتا تھا حال میر ؔ کیساتھ میں بھی زندہ رہا ضمیر کیساتھ ایک نمرود کی خدائی میں زندگی تھی عجب فقیر کے ساتھ آنکھ مظلوم کی خد ا کی طرف ظلم اِک ظلمتِ کثیر کے ساتھ جرم ہے اب مری محبت بھی اپنے اس قادرو قدیر کے ساتھ اُس نے تنہا کبھی نہیں چھوڑا وہ بھی زنداں میں ہے اسیر کے ساتھ کس میں طاقت وفا کرے ایسی اپنے بھیجے ہوئے سفیر کے ساتھ سلسلہ وار ہے وہی چہرہ عالمِ اصغر و کبیر کے ساتھ آنے والا ہے اب حساب کا دن ہونے والا ہے کچھ شریر کے ساتھ تیرے پیچھے ہے جو قضا کی طرح کب تلک جنگ ایسے تیر کے ساتھ شب دعاؤں میں تر بتر میری صبح اِک خوابِ دلپذیر کے ساتھ اہل دل کیوں نہ مانتے آخر حرف روشن تھا اس حقیر کے ساتھ 1985ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ144 100۔ ہے شعر لفظ مرا  لفظ اِ ک کہانی ہے ہے شعر لفظ مرا  لفظ اِ ک کہانی ہے کبھی ملو تمہیں تازہ غزل سنانی ہے مزا ہے آج بھی زندہ چراغ بجھنے کا وہی دیئے سے جلاتی ہوئی جوانی ہے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ145۔147 101۔ زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے زمین جب بھی ہوئی کربلا ہمارے لئے تو آسمان سے اُترا خدا ہمارے لئے اُنہیں غرور کے رکھتے ہیں طاقت و کثرت ہمیں یہ ناز بہت ہے خدا ہمارے لئے تمہارے نام پہ جس آگ میں جلائے گئے وہ آگ پھول ہے وہ کیمیا ہمارے لئے بس ایک لَو میں اسی لَو کے گرد گھومتے ہیں جلا رکھا ہے جو اس نے دیا ہما رے لئے وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے وہ ایک شخص دُعا ہی دُعا ہمارے لئے وہ نور نور دمکتا ہوا سا اِک چہرہ وہ آئینوں میں حیا ہی حیا ہمارے لئے درُود پڑھتے ہوئے اس کی دید کو نکلیں تو صبح پھول بچھائے صبا ہمارے لئے عجیب کیفیتِ جذب و حال رکھتی ہے تمہارے شہر کی آب و ہوا ہمارے لئے دیئے جلائے ہوئے ساتھ ساتھ رہتی ہے تمہاری یاد تمہاری دعا ہمارے لئے زمین ہے نہ زماں نیند ہے نہ بیداری وہ چھاؤں چھاؤں سا اک سلسلہ ہمارے لئے سخن وروں میں کہیں ایک ہم بھی تھے لیکن سخن کا اور ہی تھا ذائقہ ہمارے لئے 1985ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ148 102۔ ابھی خریدلیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے ابھی خریدلیں دنیا کہاں کی مہنگی ہے مگر ضمیر کا سودا برا سا لگتا ہے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ149 103۔ آئینہ آئینہ میں آئینہ ہوں اور ہر آنے والے کو وہی چہرہ دکھاتا ہوں جو میرے سامنے لائے مگر اب تھک گیا ہوں چاہتا ہوں کوئی مجھ کو اس طرح دیکھے کہ چکنا چور ہو جاؤں 1975ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ150 104۔ بناؤ طاق گڑیوں کے لئے کچھ بناؤ طاق گڑیوں کے لیے کچھ تمہارے گھر میں بھی آئی ہے لڑکی سمندر اس کے سینے سے بہت کم سمندر سے بھی کچھ گہری ہے لڑکی عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ151 105۔ دُکھ دُکھ رائیگاں جانے کا دکھ ہر نیا لمحہ گئے لمحے کا دکھ جو گزشتہ ہے وہ آئندہ نہیں اور آئندہ کبھی پایا نہیں کچھ اگر پایا فقط تو رائیگاں جانے کا دکھ 1975ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ152 106۔ کہیں تو چہرہ گل آفتاب ہو گا ہی کہیں تو چہرہ گل آفتاب ہو گا ہی عبید اللہ علیم یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ153۔154 107۔ دل ہی تھے ہم دکھے ہوئے تم نے دکھا لیا تو کیا دل ہی تھے ہم دُکھے ہوئے تم نے دُکھا لیا تو کیا تم بھی تو بے اماں ہوئے ہم کو ستا لیا تو کیا آپ کے گھر میں ہر طرف منظر ِ ماہ و آفتاب ایک چراغِ شام اگر میں نے جلا لیا تو کیا باغ کا باغ آپ کی دسترسِ ہوس میں ہے ایک غریب نے اگر پھُول اٹھا لیا تو کیا لُطف یہ ہے کہ آدمی عام کرے بہار کو موجِ ہوائے رنگ میں آپ نہالیا تو کیا اب کہیں بولتا نہیں غیب جو کھولتا نہیں ایسا اگر کوئی خدا تم نے بنا لیا تو کیا جو ہے خدا کا آدمی اُس کی ہے سلطنت الگ ظلم نے ظلم سے اگر ہاتھ ملا لیا تو کیا آج کی ہے جو کربلا کل پہ ہے ا ُس کا فیصلہ آج ہی آپ نے اگر جشن منا لیا تو کیا لوگ دکھے ہوئے تمام رنگ بجھے ہوئے تمام ایسے میں اہلِ شام نے شہر سجا لیا تو کیا پڑھتا نہیں ہے اب کوئی سنتا نہیں ہے اب کوئی حرف جگا لیا تو کیا شعر سنا لیا تو کیا 1986ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  ویراں سرائے کا دیا صفحہ155 108۔ مانا کہ میں جل جل کہ راکھ ہوا دنیا میں اجالا ہے کہ نہیں مانا کہ میں جل جل کہ راکھ ہوا دنیا میں اجالا ہے کہ نہیں عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری چاند چہرہ ستارہ آنکھیں عبید اللہ علیم ؔ دانیال سیپ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ5  انتساب نگار کے نام یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ13۔16  آئینہ

میرے آنگن میں گلاب کھل رہا ہے،میں اس کا رنگ بتا سکتا ہوں مگرخوشبو کو صرف محسوس کرسکتا ہوں بتا نہیں سکتا۔مختلف تمثیلات وتشبیہات کے سہارے ممکن ہے آپ کو اپنے احساس میں شریک کر لوں مگر حقیقتًا خوشبو کی کیفیت اور ذائقے تک پہنچانا میرے بس میں نہیں۔ گلاب کس مٹی میں کھلتا ہے اس کے لیے کون ساموسم اورفضا درکار ہے اس پر بہت گفتگو ہوسکتی ہے مگر اس کی خوشبو کا تعین ممکن نہیں۔شاعری کا بھی کچھ یہی احوال ہے یہ بھی انسانی وجود کی ایک ایسی خوشبو ہے جسے بس محسوس کیا جاسکتا ہے ۔شاعر کی زندگی وذات کے بارے میں اس کے معاشرے اور کلچر کے بارے میں حساب لگایاجاسکتا ہے،مگر شعر کی کیفیت اور ذائقہ منتقل نہیں کیا جاسکتااورنہ وہ محسوس کرایا جاسکتا ہےجو محسوس کیا جاتا ہے۔محسوس کرانے کا عمل دراصل ایک دوسری تخلیق ہے جس کا پہلی تخلیق سے اتنا ہی تعلق ہے کہ وہ اس کے حوالے سے وجود میں آئی ۔کیا میں ان باتوں سے ابلاغ کی شرط اٹھا رہا ہوں ۔قطعی نہیں۔صرف اتنی سی بات کہنا چاہتا ہوں کہ یہ جو کچھ میں نے شعر کی صورت میں لکھا ہے میرا ابلاغ ہے اور آپ جس طرح اسے سمجھیں گے وہ آپ کا ابلاغ ہوگا۔میں نے اپنی ذات کی اضافت سے لکھا آپ نے اپنی ذات کی اضافت سے محسوس کیا۔بہت سے لوگ اس پر مجھ سے الجھنا چاہیں گے اوروہ بات کہیں گے جو کہی جاتی ہےمگر میں ہارنے کے لیے تیار ہوں جھوٹ بولنے کے لیے تیار نہیں۔ تخلیق انکشاف ِذات ہے تو تنقید اُس انکشاف کی خبر ہے۔  تخلیق اپنے اندر ایک زبردست نمو کی طاقت رکھتی ہے اورخودبخودبڑھتی اور پھیلتی ہے ،بالکل اسی طرح جیسے اکیلا گلاب خوشبو کا ایک ہجوم اپنے ساتھ رکھتا ہے اور خوشبو فضاؤں میں گھلتی رہتی ہے آپ چاہیں تو اس کے شریک ہو جائیں لیکین خوشبوآپ کی محتاج نہیں ۔گلاب کی خوشبو آپ کی نیازمند نہیں ۔مگر گلاب کا پودا فطرت کا اور آپ کا نیاز مند ہے کہ اسے اگنے کے زمین پانی اور روشنی بہرحال چاہئیں۔ شاعری میری دانست میں انسانی وجود کی خوش آہنگ اور مترنم بے اختیاری کانام ہے۔میں اب تک شاعری کے بارے میں اتنا ہی جان سکا ہوں ۔ اپنی شاعری کے لیے بھی میرایہی خیال ہے۔شعر لکھنا میں نے کسی نظریے کے سہارے شروع نہیں کیا تھا اور اب تک کوئی نظریہ نہیں تراش پایا۔ہر چند کے یہ ہمارے شاعروں اور شاعری کی کچھ دن سے روایت ہے ۔بس میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں شاعر ہوں۔کبھی کبھی مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے شعر میری ذات کا ایک ایسا اذیت ناک جبر ہے جس سے گزر کر مجھے خوشی ہوتی ہے یا میرے حواس کا وہ آئینہ ہےجو مجھے خود اپنے جاننے کی ایک عجیب سی لذت اور سرشاری سے گزارتا ہے۔سب کچھ باہر ہے مگر وہ نہیں ہے جو میرے اندر آکر ہو جاتا ہےجن پر آپ کو سرابوں کا گمان گزرتاہے میں نے ان چشموں سے پانی پیا ہے جنھیں آپ فریب جانتے ہیں میں نے اُن میں منزلوں کے نشان دیکھے ہیں۔یہاں کوئی عمل اور کوئی بات طے شدہ نہیں۔انسانی نفس کو جاننے کا دعوٰی کون کر سکتا ہے۔بس اپنا اپنا وہم ہے اور اپنی اپنی قیاس آرائیاں۔ ان کمبخت لفظوں پر بھروسا نہ کیا جائے تو پھر کیا کیا جائے ۔میں ان کو تسخیر کر رہا ہوں یہ میری تعمیر کر رہے ہیں۔یہ میرے وفادار ہیں لیکن کبھی کبھی میں ان کا وفادار نہیں رہتا کہ ان کی حقیقی صورت میں کوئی   اورصورت دیکھنا چاہتا ہوں مگران کا ظرف کشادہ ہے یہ مجھ سے سمجھوتہ کرتے ہیں اورمیرے  نطق سے بولتے رہتے ہیں جہاں کہیں بھی مجبوری ہے میری ہے ان میں اور مجھ میں ایک دوستانہ جنگ بھی جاری ہے ان کی خواہش ہے کہ میں ان کی طرح بولوں مگر میں انھیں اپنی طرح بولنے پر مجبور کرتا رہتا ہوں۔یہ میرے بچے ہیں میں ان کی اولاد ہوں مجھے دیکھنا ہے کہ یہ جب آپ کے پاس پہنچتے ہیں تو کیا ہوجاتے ہیں۔ مجھے ان تمام لوگوں کا شکریہ ادا کرنا ہے جنھوں نے حرف لکھے اورجوحرف لکھتے ہیں۔میرے آئینے میں وہ چہرے ضرور بولیں گے جنھیں میں نے اپنا چہرہ سمجھ کر دیکھا ہے میں ان کی تکریم وتعظیم میں محض اپنا چہرہ پیش کرسکتا ہوں اوریہ میری شاعری ہے۔

یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ17۔18 109۔ مرے خدا مجھے وہ تاب نے نوائی دے مرے خدا مجھے وہ تاب نے نوائی دے میں چپ رہوں تو بھی نغمہ مرا سنائی دے گدائے کوئے سخن اور تجھ سے کیا مانگے یہی کہ مملکتِ شعر کی خدائی دے نگاہِ دہر  میں اہلِ کمال ہم بھی ہوں جو لکھ رہے ہیں وہ دنیا اگر دکھائی دے چھلک نہ جاؤں کہیں میں وجود سے اپنے ہنر دیا ہے تو پھر ظرفِ کبریائی دے مجھے کمال سخن سے نوازنے  والے سماعتوں کو بھی اب ذوقِ آشنائی دے نمو، پذیر ہے یہ شعلۂ نوا تو اسے ہر آنے والے زمانے کی پیشوائی دے کوئی کرے تو کہاں تک کرے مسیحائی کہ ایک زخم بھرے دوسرا دُہائی دے میں ایک سے کسی موسم میں نہیں رہ سکتا کبھی وصال سے کبھی ہجر سے رہائی دے جو ایک خواب کا نشّہ ہو کم تو آنکھوں کو ہزار خواب دے اور جرأتِ رسائی دے 1971ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ19۔20 110۔ خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کومہر اچھا یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ کھچی ہوئی ہیں پسِ جاں یہ صورتیں کیسی ہَوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم جو بُجھ گئے تو ہَوا سے شکایتیں کیسی جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دی ہے میں سنگِ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی نہیں کہ حسن ہی نیر نگیوں میں طاق نہیں جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی نہ صاحبانِ جنوں ہیں نہ اہلِ کشف و کمال ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی جو اَبر ہے سو وہ اب سنگ و خشت لاتا ہے فضا یہ ہو تو دلوں کی نزاکتیں کیسی یہ دورِ بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ21۔22 111۔ خورشید بکف کوئی کہاں ہے خورشید بکف کوئی کہاں ہے سب اپنی ہی روشنیٔ جاں ہے میں بھی تو ادھر ہی جا رہا ہوں مجھ کو بھی تلاش ِ رفتگاں ہے پھر دیکھنا خوابِ عہد رفتہ مل لو ابھی وقت مہرباں ہے سودا بھی کروں تو کیا کہ دنیا باہر سے سجی ہوئی دُکاں ہے شعلے کوخبر ہی کیا نمو میں اپنے ہی وجود کا زیاں ہے ہر لحظہ بدل رہی ہے دنیا ہر پَل کوئی خوابِ رائیگاں ہے لیتا ہی نہیں کہیں پڑاؤ یادوں کا عجیب کارواں ہے مانا کہ جدا نہیں ہیں ہم تم پھر بھی کوئی فصل درمیاں ہے اے ابرِ بہارِ نو برس بھی پھر تازہ ہجوم تشنگاں ہے اے موجِ فنا  گزر بھی سر سے ہونے کا مجھے بہت گماں ہے 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ23۔24 112۔ محبت محبت میں جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہوں نہیں سمجھتا کہ ایسا کیوں ہے نہ خال و خد کا جمال اُس میں، نہ زندگی کمال کوئی جو کوئی اُس میں ہنر  بھی ہوگا تو مجھ کو اس کی خبر نہیں ہے نہ جانے پھر کیوں! میں وقت کے دائروں سے باہرکسی تصور میں اڑ رہا ہوں خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوتِ بزم میں شب و روز مرا لہو اپنی گردشوں میں اُسی کی تسبیح پڑھ رہا ہے جو میری چاہت سے بے خبر ہے کبھی کبھی وہ نظر چرا کر قریب سے میرے یوں بھی گزرا کہ جیسے وہ با خبر ہے میری محبتوں سے دل و نظر کی حکایتیں سن رکھی ہیں اس نے مری ہی صورت وہ وقت کے دائروں سے باہرکسی تصورمیں اڑ رہا ہے خیال میں، خواب و خلوتِ ذات و جلوتِ بزم میں شب و روز وہ جسم و جاں کے تمام رشتوں سے چاہتا ہے مگر نہیں جانتایہ وہ بھی کہ ایسا کیوں ہے میں سوچتا ہوں،وہ سوچتا ہے کبھی ملے ہم تو آئینوں کے تمام باطن عیاں کریں گے حقیقتوں کا سفر کریں گے 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ25۔26 113۔ عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے عزیز اتنا ہی رکھو کہ جی سنبھل جائے اب اس قدر بھی نہ چاہو کہ دم نکل جائے ملے ہیں یوں تو بہت آؤ اب ملیں یوں بھی کہ روح گرمیٔ انفاس سے پگھل جائے محبتوں میں عجب ہے دلوں کو دھڑکا سا کہ  جانے کون کہاں راستہ بدل جائے زہے وہ دل جو تمنّائے تازہ تر میں رہے خوشا وہ عمر جو خوابوں ہی میں بہل جائے میں وہ چراغ سرِ رہ گزارِ دنیا ہوں جو اپنی ذات کی تنہائیوں میں جل جائے ہر ایک لحظہ یہی آرزو یہی حسرت جو آگ دل میں ہے وہ شعر میں بھی ڈھل جائے 1966ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ27۔28 114۔ کوئی دھن ہو میں تیرے گیت ہی گائے جاؤں کوئی دھن ہو میں تیرے گیت ہی گائے جاؤں درد سینے میں اٹھے شور مچائے جاؤں خواب بن کر تُو برستا رہے شبنم شبنم اور بس میں اِسی موسم میں نہائے جاؤں تیرے ہی رنگ اترتے چلے جائیں مجھ میں خود کو لکّھوں تری تصویر بنائے جاؤں جس کو ملنا نہیں پھر اُس سے محبت کیسی سوچتا جاؤںمگر دل میں بسائے جاؤں تو اب اس کی ہوئی جس پہ مجھے پیار آتا ہے زندگی آ تجھے سینے سے لگائے جاؤں یہی چہرے میرے ہونے کی گواہی دیں گے ہر نئے حرف میں جاں اپنی سمائے جاؤں جان تو چیز ہے کیا رشتۂ جاں سے آگے کوئی آواز دیے جائے میں آئے جاؤں شاید اس راہ پہ کچھ اور بھی راہی آئیں دُھوپ میں چلتا رہوں سائے بچھائے جاؤں اہلِ دل ہوں گے تو سمجھیں گے سخن کو میرے بزم میں آہی گیا ہوں تو سنائے جاؤں 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ29۔30 115۔ یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں یہ اور بات کہ اس عہد کی نظر میں ہوں ابھی میں کیا کہ ابھی منزلِ سفر میں ہوں ابھی نظر نہیں ایسی کہ دور تک دیکھوں ابھی خبر نہیں مجھ کو کہ کِس اثر میں ہوں پگھل رہے ہیں جہاں لوگ شعلۂ جاں سے شریک میں بھی اسی محفلِ ہنر میں ہوں جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرا دے پڑا ہوا میں زمانے کی رہ گزر میں ہوں جو سایہ ہو تو ڈرو اور دُھوپ ہو تو جلوں کہ ایک نخلِ نمو خاکِ نوحہ گر میں ہوں کرن کرن کبھی خورشید بن کے نکلوں گا ابھی چراغ کی صورت میں اپنے گھر میں ہوں بچھڑ گئی ہے وہ خوشبواُ جڑ گیا ہے وہ رنگ بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشمِ تر میں ہوں قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا دُعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں 1966ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ31۔33 116۔ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں چاند چہرہ ستارہ آنکھیں مِرے خدایا !میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں یہ میرا چہرہ، یہ میری آنکھیں بجھے ہوئے سے چراغ جیسے جو پھر سے جلنے کے منتظر ہوں وہ چاند چہرہ ، ستارہ آنکھیں وہ مہرباں سایہ دار زلفیں جنہوں نے پیماں کیے تھے مجھ سے رفاقتوں کے، محبتوں کے کہا تھا مجھ سے کہ اے مسافر رہِ وفا کے جہاں بھی جائے گا ہم بھی آئیں گے ساتھ تیرے بنیں گے راتوں میں چاندنی ہم تو دن میں سائے بکھیر دیں گے وہ چاند چہرہ ،ستارہ آنکھیں وہ مہرباں سایہ دار زلفیں وہ اپنے پیماں رفاقتوں کہ محبتوں کے شکست کر کے نہ جانے اب کس کی رہ گزر کا منارۂ روشنی ہوئے ہیں مگر مسافر کو کیا خبر ہے وہ چاند چہرہ تو بجھ گیا ہے ستارہ آنکھیں تو سو گئی ہیں وہ زلفیں بے سایہ ہوگئی ہیں وہ روشنی اور وہ سارے مری عطا تھے سو میری راہوں میں آج بھی ہیں کہ میں مسافر رہ وفا کا وہ چاند چہرہ ستارہ آنکھیں وہ مہرباں سایہ دار زلفیں ہزاروں چہروں ہزاروں آنکھوں کا ایک سیلاب تند لے کر مرے تعاقب میں آرہے ہیں ہر ایک چہرہ ہے چاند چہرہ ہیں ساری آنکھیں ستارہ آنکھیں مہرباں سایہ دار زلفیں میں کس کو چاہوں،میں کس کو چوموں میں کس کے سائے میں بیٹھ جاؤں بچوں کہ طوفاں میں ڈوب جاؤں کہ میرا چہرہ ،نہ میری آنکھیں مرے خدایا!میں زندگی کے عذاب لکھوں کہ خواب لکھوں 1966ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ34 117۔ اے دل وہ شاید خواب ہی تھاکب گھر کوئی میں نے بسایا تھا اے دل وہ شاید خواب ہی تھاکب گھر کوئی میں نے بسایا تھا کوئی رنگ تھا اور نہ خوشبو تھی سناٹا بولنے آیا تھا عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ35۔36 118۔ بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا ایک شخص بنا گلاب تو کانٹے چبھا گیا اک شخص ہوا چراغ تو گھر ہی جلا گیا اک شخص تمام رنگ میرے اور سارے خواب میرے فسانہ تھے کہ فسانہ بنا گیا اِک شخص میں کس ہَوا میں اڑوں کس فضا میں لہراؤں دکھوں کے جال ہر ایک سو بچھا گیا اِک شخص پلٹ سکوں ہی نہ آگےہی بڑھ سکوں جس پر مجھے یہ کون سے رستے لگا گیا اِک شخص محبتیں بھی عجب اس کی نفرتیں بھی کمال مری ہی طرح کا مجھ میں سما گیا اک شخص محبتوں نے کسی کی بھلا رکھا تھا اسے ملے وہ زخم کہ پھر یاد آگیا اِک شخص وہ ماہتاب تھا مرہم بدست آیا تھا مگر کچھ اور سوا دل دُکھا گیا اک شخص کھلا یہ راز کہ آئینہ خانہ ہے دنیا اور اس میں مجھ کو تماشا بنا گیا اک شخص 1968ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ37۔38 119۔ جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی جوانی کیا ہوئی اک رات کی کہانی ہوئی بدن پرانا ہوا روح بھی پرانی ہوئی کوئی عزیز نہیں ماسوائے ذات ہمیں اگر ہوا ہے تو یوں جیسے زندگانی ہوئی نہ ہو گی خشک کہ شاید وہ لوٹ آئے پھر یہ کِشت گزرے ہوئے اَبر کی نشانی ہوئی تم اپنے رنگ نہاؤمیں اپنی موج اڑوں وہ بات بھول بھی جاؤجو آنی جانی ہوئی میں اس کو  بھول گیا ہوں وہ مجھ کو بھول گیا تو پھر یہ دل پہ کیوں دستک سی ناگہانی ہوئی کہاں تک اور بھلا جاں کا  ہم زیاں  کرتے بچھڑ گیا ہے تو یہ اس کی مہربانی ہوئی 1969ء عبید اللہ علیم ؔ ہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ39۔40 120۔ اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا اب تو ہو کسی رنگ میں ظاہر تو مجھے کیا ٹھہرے ترے گھر کوئی مسافرتو مجھے کیا ویرانۂ جاں کی جو فضا تھی سو رہے گی چہکے کسی گلشن میں وہ طائر تو مجھے کیا وہ شمع میرے گھر میں  تو بے نور ہی ٹھہری بازار میں  وہ جنس  ہو نادر تو مجھے کیا وہ رنگ فشاں آنکھ وہ تصویر نما ہاتھ دکھلائیں نئے روز مناظر تو مجھے کیا میں نے اسے چاہا تھا تو چاہا  نہ گیا میں چاہے مجھے اب وہ مری خاطر تو مجھے کیا دنیا نے تو جانا کہ نمو اس میں ہے میری اب ہو وہ مری ذات کا منکر تو مجھے کیا اِک خواب تھا اور بجھ گیا آنکھوں ہی میں اپنی اب کوئی پکارے مرے شاعر تو مجھے کیا 1969ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ182 121۔ الفاظ الفاظ یہ لفظ سقراط،لفظ عیسیٰ میں ان کا خالق، یہ میرے خالق یہی ازل ہیں، یہی ابد ہیں ، یہی زماں ہیں یہی مکاں ہیں یہ ذہن تا ذہن رہ گزر ہیں یہ رُوح تا رُوح اک سفر ہیں صداقتِ عصر بھی یہی ہیں کراہتِ جبر بھی یہی ہیں علامتِ درد بھی یہی ہیں کرامتِ صبر بھی یہی ہیں بغیر تفریقِ رنگ و مذہب زمیں زمیں ان کی بادشاہی کھنچے ہوئے ہیں لہو لہو میں بچھے ہوئے ہیں زباں زباں پر یہ جھوٹ بھی ہیں یہ لوٹ بھی ہیں یہ جنگ بھی ہیں یہ خون بھی ہیں مگر یہ مجبوریاں ہیں ان کی بغیر ان کے حیات ساری توہماتی ہر ایک حرکت سکوت ٹھہرے نہ کہہ سکیں کچھ، نہ سن سکیں کچھ ہر ایک آئینہ اپنی عکّاسیوں پہ حیراں ہواور چپ ہو نگاہِ نظارہ بیں تماشا ہو وحشتوں کا اجازتِ جلوہ دے کہ جیسے زباں سے گویائی چھین لی جائے نہ حسن کچھ ہو، نہ عشق کچھ ہو تمام احساس کی ہوائیں تمام عرفان کے جزیرے تمام یہ علم کے سمندر سراب ہوں،وہم ہوں، گماں ہو یہ لفظ تیشہ ہیں جن سے افکار اپنی صورت تراشتے ہیں مسیح دست و قلم سے نکلیں تو پھر یہ الفاظ بولتے ہیں یہی مصور، یہی ہیں بت گر، یہی ہیں شاعر یہی مغنّی، یہی نوا ہیں یہی پیمبر، یہی خدا ہیں میں کیمیا ہوں ، یہ کیمیا گر یہ میرا کلیان چاہتے ہیں میں ان کی تسخیر کر رہا ہوں یہ میری تعمیر کر رہے ہیں 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ43۔44 122۔ میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے میں جس میں کھو گیا ہوں مرا خواب ہی تو ہے یک دو نفس نمود سہی زندگی تو ہے جلتی ہے کتنی دیر ہواؤں میں میرے ساتھ میرے لہو میں ایسی بھی اک روشن ہوئی تو ہے جس میں بھی ڈھل گئی اُسے مہتاب کر گئی میرے لہو میں ایسی بھی اِک روشنی تو ہے پر چھائیوں میں ڈوبتا دیکھوں بھی مہر ِعمر اور پھر بچا نہ پاؤں یہ بیچارگی تو ہے تُو بُوئے گل ہے اور پریشاں ہَوا ہوں میں دونوں میں ایک رشتہ ء آوارگی تو ہے اے خواب خواب عمرِ گریزاں کی ساعتو تم سن سکو تو بات میری گفتنی تو ہے 1966ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ45۔46 123۔ ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت ہم دیوانوں کی قسمت میں لکھے ہیں یاں قہر بہت کُوچہ کُوچہ سنگ بہت اور زنداں زنداں زہر بہت جب تک ہم مانوس نہیں تھےدرد کی ماری دنیا سے عارض عارض رنگ بہت تھے آنکھوں آنکھوں سحر بہت ہم تو جہاں والوں کی خاطر جاں سے گزرے جاتے ہیں پھر یہ ستم کیا ہےکہ ہمیں پر تنگ ہوا ہےدہر بہت اپنے دیس کے لوگوں کا کچھ حال عجب ہی دیکھا ہے سوئیں تو طوفان بھی کم اور جاگ اٹھیں تو لہر بہت رات آئی تو گھر گھر وحشی سایوں کی تقسیم ہوئی دن نکلا تو جبر کی دُھوپ میں جلتا ہے یہ شہر بہت ساری عمر تماشا ٹھہری ہجر و وصال کی راہوں کا جس سے ہم نے پیار کیا ہے وہ نکلا ہے بے مہر بہت 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ47۔48 124۔ دن گزارو کہ جاں نثار کرو دل گزارو کہ جاں نثار کرو دور صدیوں کا یہ غبار کرو کوئی مذہب نہیں ہے خوشبو کا عام یہ مُژدۂ بہار کرو زندگی ایک بار ملتی ہے دوستو زندگی سے پیار کرو زُلف کی چھاؤں ہو کہ دار کی دھوپ زندگہ ہو جہاں قرار کرو جو ابھی قرض ہیں دل و جاں پر ان شکستوں کا بھی شمار کرو رات کہتی ہے سو رہوچُپ چاپ دل یہ کہتا ہے انتظار کرو اور کیا ہے تمہارے پاس علیم تحفۂ شعر نذرِ یار کرو 1962ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ49 125۔ لہو لہو زنجیر لہو لہو زنجیر صفحۂ دہر پر کرب کی خونچکاں آیتیں ثبت ہیں اور میں پڑھ رہا ہوں انھیں میں پیمبر، نہ میں فلسفی اور نہ میں دیوتا ان کی تعظیم کرتا ہوں جو زندگی کی امر روشنی کے لیے مر گئے اور مر جائیں گے میرے احساس کی آنکھ پتھرا چلی زندہ الفاظ کے ورد میں اس سے پہلے کہ سارا لہو کھینچ لے مرگ آثار، سفّاک ،ظالم ہوا اے خدا ،اے خدا آمرے دکھ میں کچھ تو بھی حصہ بٹا 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ50 126۔ کچھ دُکھتے ہوئے خواب کچھ چبھتی یادیں بسائے ہوئے کچھ دُکھتے ہوئے خواب کچھ چبھتی یادیں بسائے ہوئے میں ریزہ ریزہ بکھر گیاکوئی دیکھنے والا ہے کہ نہیں عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ51۔52 127۔ پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ پا بہ زنجیر سہی زمزمہ خواں ہیں ہم لوگ محفلِ وقت تری روحِ رواں ہیں ہم لوگ دوش پر بارِ شبِ غم لئے گل کے مانند کون سمجھےکہ محبت کی زباں ہیں ہم لوگ خوب پایا ہے صلہ تیری پرستاری کا دیکھ اے صبحِ طرب آج کہا ں ہیں ہم لوگ اِک متاع دل و جاں پاس تھی سو ہار چکے ہائے یہ وقت کہ اب خود پہ گراں ہیں ہم لوگ نکہتِ گل کی طرح ناز سے چلنے والو ہم بھی کہتے تھے کہ آسودۂ جاں ہیں ہم لوگ کوئی بتلائے کہ کیسے یہ خبر عام کریں ڈھونڈتی ہے جسے دنیا وہ نشاں ہیں ہم لوگ قسمتِ شب زدگاں جاگ ہی جائے گی علیم جرسِ قافلۂ خوش خبراں ہیں ہم لوگ 1963ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ53۔54 128۔ صاحبِ مہر و وفا ارض وسماں کیوں چپ ہے صاحبِ مہر و وفا ارض وسماں کیوں چپ ہے ہم پہ تو وقت کہ پہرے ہیں خدا کیوں چپ ہے بے سبب غم میں  سلگنا مری عادت ہی سہی ساز خاموش ہے کیوں شعلہ نواں کیوں چپ ہے پھول تو سہم گئے دستِ کرم سےدمِ صبح گنگناتی ہوئی آوارہ صبا کیوں چپ ہے ختم ہو گا نہ کبھی سلسلۂ اہل  وفا سوچ اے داورِ مقتل یہ فضا کیوں چپ ہے مجھ پہ طاری ہے رہِ عشق کی آسودہ تھکن تجھ پہ کیا گزری مرے چاند بتا کیوں چپ ہے جاننے والے تو سب جان گئے ہوں گے علیم ایک مدت سے ترا ذہن رسا کیوں چپ ہے 1961ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ55۔56 129۔ ہر آواز زمستانی ہے ہر جذبہ رندانی ہے ہر آواز زمستانی ہے ہر جذبہ رندانی ہے کوچۂ یار سے دارو رسن تک ایک سی ہی ویرانی ہے کتنے کوہِ گراں کاٹے تب صبحِ طرب کی دید ہوئی اور یہ صبحِ طرب بھی یارو کہتے ہیں بیگانی ہے جتنے آگ کے دریا ہیں سب پار ہمیں کو کرنا ہیں دنیا کس کے ساتھ آئی ہے دنیا تو دیوانی ہے لمحہ لمحہ خواب دکھائے اور سو سو تعبیر کرے لذّت کم آزار  بہت ہے  جس کا نام جوانی ہے دل کہتا ہے وہ کچھ بھی ہو اس کی یاد جگائے رکھ عقل یہ کہتی ہے کہ توہم پر جینا  نادانی ہے تیرے پیار سے پہلے کب تھا دل میں ایسا سوز وگداز تجھ سے پیار کیا تو ہم نے اپنی قیمت جانی ہے آپ بھی کیسے شہر میں آکر شاعر کہلائے ہیں علیم درد جہاں کم یاب بہت ہے نغموں کی ارزانی ہے 1963ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ57۔58 130۔ دکھے دلوں کو سلام میرا دکھے دلوں کو سلام میرا دکھے ہوئے دل ہیں میرا مذہب میرا عقیدہ دکھے ہوئے دل مرا حرم ہیں، مرے کلیسا ، مرے شوالے دکھے ہوئے دل چراغ میرے ، گلاب میرے دکھے ہوئے دل کہ روشنی بھی ہیں اور خوشبو بھی زندگی کی، دکھے ہوئے دل کہ زندگی کا عظیم سچ ہیں دکھے ہوئے دل جہاں کہیں ہیں دکھے ہوئے دل مرا ہی دل ہیں دکھے دلوں کو سلام میرا 1967ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ59۔60 131۔ ایک ایسی بھی ہوا آئے گی ایک ایسی بھی ہوا آئے گی جو ہر اِک زخم کو بھر جائے گی یہ کنارے سے لپٹتی ہوئی موج کبھی طوفاں بھی اٹھا لائے گی پھول میں ہو کہ ہوا میں خوشبو نور ہے نور ہی برسائے گی اور یہ  عشق و ہوس کی دنیا تشنگی کے سوا کیا پائے گی پھول بھی شاخ سے گر جائیں گے شاخ بھی دھوپ سے مرجھائے گی ہے سمٹتے ہوئے سائے کی صدا اُٹھ یہ دیوار بھی گر جائے گی کوئی احساس اگر ہے تو کہو بات لفظوں سے نہ بن پائے گی 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ61۔62 132۔ اب نہ اس سمت نظر جائے گی اب نہ اُس سمت نظر جائے گی جیسے گزرے گی گزر جائے گی صُورت زلف یہ تلوار سی رات جیسے دل ہی میں اتر جائے گی ہم پہ اب جو بھی قیامت گزرے تیری دنیا تو سنور جائے گی دور تک ہم ہی نظر آئیں گے جس طرف بھی وہ نظر جائے گی اس بدلتی ہوئی رفتار کے ساتھ زندگی جانے کدھر جائے گی اور کچھ دنوں میں جنوں کی اپنے شہر در شہر خبر جائے گی لمحہ لمحہ جو سمیٹی   ہے عمر ایک لمحے میں بکھر جائے گی 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ63۔64 133۔ چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز چاند سا دل ہو چاندنی سا گداز ورنہ کیا نغمہ ساز و نغمہ نواز سننے والو اسے بھی سن لینا صُورت زخم بھی ہے اِک آواز جس کو دیکھو وہ دل شکستہ ہے کون ہے اس جہاں کا آئینہ ساز قید کی عمر ایسی راس آئی سو رہی بازوؤں ہی میں پرواز جس نے بخشے ہیں غم اُسی کیلئے کر رہا ہوں دعائے عمرِ دراز 1962ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ65۔66 134۔ گیت گیت نرم کونپل پہ شبنم کے موتی تال پر صبح کی گنگنائیں ہونٹ پر جب کرن ہونٹ رکھ دے مسکرائیں تو واپس نہ آئیں نرم کونپل پہ شبنم کے موتی سچّے سر کی سچائی میں جھول رہے ہیں بدن لہروں لہروں گاتی جائے جیسے مست پون دیکھو ساون گاتا آیا اپنے آنگن گاتا آیا نرم کونپل پہ شبنم کے موتی آؤ مل کہ موج میں اپنی کھیلیں ہواؤں کے سنگ ہولے ہولے بادل چھو لیں جیسے فضاؤں کے رنگ دیکھو ساون گاتا آیا اپنے آنگن گاتا آیا نرم کونپل پہ شبنم کے موتی تال پر صبح کی گنگنائیں ہونٹ پر جب کرن ہونٹ  رکھ دے مسکرائیں تو واپس  نہ آئیں 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ67۔68 135۔ کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں کچھ دن تو بسو میری آنکھوں میں پھر خواب اگر ہو جاؤ تو کیا کوئی رنگ تو دو میرے چہرے کو پھر زخم اگر مہکاؤ تو کیا جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا اِک آئینہ تھا سو ٹوٹ گیا اب خود سے اگر تو شرماؤ تو کیا تم آس بندھانے والے تھے اب تم بھی ہمیں ٹھکراؤ تو کیا دنیا بھی وہی اور تم بھی وہی پھر تم سے آس لگاؤ توکیا میں تنہا تھا میں تنہا ہوں تم آؤ تو کیا نہ آؤ تو کیا جب دیکھنے والا کوئی نہیں بجھ جاؤ تو کیا گہناؤ تو کیا اک وہم ہے یہ دنیا اس میں کچھ کھوؤ تو کیا  اور پاؤ تو کیا ہے یوں بھی زیا ں اور یوں بھی زیاں جی جاؤ تو کیا مر جاؤ تو کیا 1970ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ69۔70 136۔  محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں محبتوں کے یہ دریا اتر نہ جائیں کہیں جو دل گلاب ہیں زخموں سے بھر نہ جائیں کہیں ابھی تو وعدہ و پیماں ہیں  اور یہ حال اپنا وصال ہو تو خوشی سے ہی مر نہ جائیں کہیں یہ رنگ چہرے کے اور خواب اپنی آنکھوں کے ہوا چلے کوئی ایسی بکھر نہ جائیں کہیں جھلک رہا ہے جن آنکھوں سے اب وجود مرا آنکھیں ہائے یہ آنکھیں مکر نہ جائیں کہیں پکارتی ہی  نہ رہ جائے  یہ زمیں پیاسی برسنے والےیہ بادل گزر نہ جائیں کہیں نڈھال اہل طرب ہیں کہ اہل گلشن کے بجھے بجھے سے یہ چہرےسنور نہ جائیں کہیں فضائے شہر عقیدوں کی دھند میں ہے اسیر نکل کے گھر سے  اب اہل نظر نہ جائیں کہیں 1970ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ71۔73 137۔ کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا کچھ تو بتاؤ شاعر بیدار کیا ہوا کس کی تلاش ہے تمہیں اور کون کھو گیا آنکھوں میں روشنی بھی ہے ویرانیاں بھی ہیں اِک چاند ساتھ ساتھ ہے اِک چاند گہہ گیا تم ہمسفر ہوئے تو ہوئی زندگی عزیز مجھ میں تو زندگی کا کوئی حوصلہ نہ تھا تم ہی کہو کہ ہوبھی سکے گا  مرا علاج اگلی محبتوں کے مرے زخم آشنا جھانکا ہے میں نے خلوت جاں میں نگارِ جاں کوئی نہیں ہے کوئی نہیں ہے ترے سوا وہ اور تھا کوئی جسے دیکھا ہے بزم میں گر مجھ کو ڈھونڈنا ہے مری خلوتوں میں آ اے میرے خواب آ مری آنکھوں کو رنگ دے اے مری روشنی تو مجھے راستا دکھا اب آبھی جا کہ صبح سے پہلے ہی بجھ نہ جاؤں اے میرے آفتاب بہت تیز ہے ہوا یارب عطا ہو  زخم کوئی شعر آفریں اِ ک عمر ہو گئی کہ مرا دل نہیں دکھا وہ دور آگیا ہے کہ اب صاحبان درد جو خواب دیکھتے ہیں وہی خواب نارسا دامن بنے تو رنگ ہوا دسترس سے دور موجِ ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گزیر پا لکّھیں بھی کیا کہ اب کوئی احوالِ دل نہیں چینخیں بھی کیا کہ اب کوئی سنتا نہیں صدا آنکھوں میں کچھ نہیں ہے بجز خاکِ رہ گزر سینے میں کچھ نہیں ہے بجز نالہ و نوا پہچان لو ہمیں کہ تمہاری صدا ہیں ہم سن لو کہ پھر نہ آئیں گے ہم سے غزل سرا 1970ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ74 138۔ نیا عشق نیا عشق اے میرے لہو کی لہرِتازہ! تو موسم ابروبادوبادہ چہرہ وہی خواب سا دکھا جا باتیں وہ شراب سی سنا جا مل کر نہ بچھڑ سکیں کبھی ہم اک بار تُو اس طرح ملا جا جو میرے اور اُس کے درمیاں ہے ڈھا جا وہ فصیلِ ہجر ڈھا جا اے میرے لہو کی لہرِتازہ! تو موسم ابروبادوبادہ موج کی جگہ لہر کے استعمال پر معذرت عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ75۔76 139۔ سچا جھوٹ سچا جھوٹ میں بھی جھوٹا تم بھی جھوٹے آؤ چلو تنہا ہوجائیں کون مریض اور کون مسیحا اس دکھ سے چھٹکارا پائیں آنکھیں اپنی خواب بھی اپنے اپنے خواب کسے دکھلائیں اپنی اپنی روحوں میں سب اپنے اپنے لوڑھ سجائیں اپنے اپنے کاندھوں پر سب اپنی اپنی لاش اٹھائیں بیٹھ کے اپنے اپنے گھر میں اپنا اپنا جشن منائیں شاید لمحہ آئندہ میں لوگ ہمیں سچا ٹھہرائیں 1966ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ77۔78 140۔ عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے عذاب آئے تھے ایسے کہ پھر نہ گھر سے گئے وہ زندہ لوگ مرے گھر کے جیسے مر سے گئے ہزار طرح کے صدمے اٹھانے والے لوگ نہ جانے کیا ہوا اِک آن میں بکھر سے گئے بچھڑنے والوں کا دکھ ہو تو سوچ لینا یہی کہ اِک نوائے پریشاں تھے رہ گزر سے گئے ہزار راہ چلے پھر وہ رہ گزر آئی کہ اک سفر میں رہے اور ہر سفر سے گئے کبھی وہ جسم ہوا اور کبھی وہ روح تمام اسی کے خواب تھے آنکھوں میں ہم جدھر سے گئے یہ حال ہو گیا آخر تری محبّت میں کہ چاہتے ہیں تجھے اور تری خبر سے گئے مرا ہی رنگ تھے، تو کیوں نہ بس رہے مجھ میں مرا ہی خواب تھے تو کیوں مری نظر سے گئے جو زخم، زخم ِ زباں بھی ہے اور نمو بھی ہے تو پھر یہ وہم ہے کیسا کہ ہم ہنر سے گئے 1969ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ79۔80 141۔ میں یہ کس کے نام لکھوں جو الم گزر رہے ہیں میں یہ کس کے نام لکھوں، جو الم گزر رہے ہیں مرے شہر جل رہے ہیں، مرے لوگ مر رہے ہیں کوئی غُنچہ ہو کہ گُل ہو، کوئی شاخ ہو شجر ہو وہ ہوائے گلستاں ہے کہ سبھی بِکھر رہے ہیں کبھی رحمتیں تھیں نازل اِسی خطۂ زمیں پر وہی خطۂ زمیں ہے کہ عذاب اُتر رہے ہیں وہی طائروں کے جُھرمٹ جو ہوا میں جُھولتے تھے وہ فضا کو دیکھتے ہیں تو اب آہ بھر رہے ہیں بڑی آرزو تھی ہم کو، نئے خواب دیکھنے کی سو اب اپنی زندگی میں نئے خواب بھر رہے ہیں کوئی اور تو نہیں ہے، پسِ خنجر آزمائی ہمیں قتل ہو رہے ہیں، ہمیں قتل کر رہے ہیں 1971ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ81۔82 142۔ خوشا وہ د َورکہ جب تجھ سے رسم و راہ نہ تھی خوشا وہ دَور کہ جب تجھ سے رسم و راہ نہ تھی سکون کُفر نہ تھا زندگی گناہ نہ تھی نفس نفس پہ اُبھرتی ہوں سولیاں جیسے حیات اتنی تو پہلے کبھی تباہ نہ تھی بہ فیضِ حسرتِ دیدار خسروانِ جنوں اُدھر بھی دیکھ گئے جس طرف نگاہ نہ تھی خود اپنی روشنیء طبع کے ستائے ہوئے وہ ہم تھے دہر میں جن کو کہیں پناہ نہ تھی وہ اک نگاہ کہ سب کچھ سمجھ لیا تھا جسے تباہئ دل و جاں پر وہی گواہ نہ تھی 1960ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ83 143۔ مرثیہ مرثیہ اداس یادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا کہ میری آنکھوں میں اب لہو ہے نہ خواب کوئی میں سب دیے طاقِ آرزو کے بجھا چکا ہوں تُو ہی بتا اب کہ مرگ ِمہتاب و خونِ انجم پہ نظر کیا دوں نہ میرا ماضی نہ میرا فردا بکھر گئی تھی جو زلف کب کی سنور چکی ہے اور آنے والی سحر بھی آ کر گزر چکی ہے اداس یادوں کی مضمحل رات بیت بھی جا! 1968ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ84 144۔ تین شعر تین شعر بوٹا بوٹا دھوپ جلا دے شجر شجربے سایا ہے گھر اپنا صحراتو نہیں ہےلیکن صحراجیسا ہے کچھ نہیں سیکھا ہم نے جنوں سے ہاں اتنا سیکھا ہے اتنی اس کی عزت کی جو عشق میں جتنا رسوا ہے ترکِ تعلق ایک قیامت پرسشِ یاراں اور عذاب کیا بتلائیں ہجر زدہ دل کیسے کیسے دکھتا ہے 1966ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ85۔86 145۔ لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور لکھنے ہیں ابھی مرثیہ ہائے دل و جاں اور کچھ زخم مجھے اے مرے مرہم نظراں اور اتنا ہی کہ بس نغمہ سرایانِ جہاں ہیں ملتا نہیں کچھ اس کے سوا اپنا نشاں اور کھینچے ہے مری طبعِ سخن اپنی ہی جانب اور گردشِ دوراں ہے کہ دکھلائے سماں اور کچھ نذر ہوئے وقت کی بے رحم ہوا کے کچھ خواب ابھی میرے لہو میں ہیں رواں اور ہر لحظہ میں آزادیِ جاں کا تھا طلب گار ہر گام پڑی پاؤں میں زنجیرِ گراں اور کس طرح سے اچھا ہو وہ بیمار کہ جس کو دُکھ اور ہو، دیتے ہوں دوا چارہ گراں اور 1967ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ87۔88 146۔ گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں گزرو نہ اس طرح کہ تماشا نہیں ہوں میں سمجھو کہ اب ہوں اور دوبارہ نہیں ہوں میں اک طبع رنگ رنگ تھی سو نذرِ گل ہوئی اب یہ کہ اپنے ساتھ بھی رہتا نہیں ہوں میں ہو دیدۂ  ہنر دلِ دردآشنا کی خیر! کب لذتِ خیال میں دریا نہیں ہوں میں تم نے بھی میرے ساتھ اُٹھائے ہیں دکھ بہت خوش ہوں کہ راہِ شوق میں تنہا نہیں ہوں میں پیچھے نہ بھاگ وقت کی اے ناشناس دھوپ سایوں کے درمیان ہوں  سایہ نہیں ہوں میں جو کچھ بھی ہوں، میں اپنی ہی صورت میں ہوں علیمؔ غالبؔ نہیں ہوں، میرؔ و یگانہ نہیں ہوں میں 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ89۔90 147۔ عشو ۂ وغمزۂ ورم بھول گئے عشو ۂ وغمزۂ ورم بھُول گئے تیری ہر بات کو ہم بھول گئے لوگ دیتے ہیں جسے پیار کا نام ایک دھوکا تھا کہ ہم بھول گئے جن کو دعوی تھا مسیحائی کا اپنا ہی دیدۂ نم بھول گئے یوں ہی الزام ہے دیوانوں پر کب ہوئے تھے جو کرم بھول گئے جانے کیوں لوگ ہنسا کرتے ہیں جانے ہم کون سا غم بھول گئے اب تو جینے دو زمانے والو اب تو اس زلف کے خم بھول گئے زندگی نے جو سکھایا تھا علیم زندگی کے لیے ہم بھول گئے 1961ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ91۔92 148۔ وقت وقت

کوہکن وقت تیشہ چلاتا ہواصبح سے دوپہر تک تو آہی گیا ہر قدم ڈھونڈتا اک نیا راستہ راہ شمس وقمر تک تو آہی گیا صبح آغاز سےمہر رفتار ہےجو بھی ہے فرق وہ عمر کا فرق ہے تیرگی روشنی کی گراں جنگ سے اب قویٰ اس کے سب مضمحل ہو چکے ڈھل چکا نشۂ طاقت وعزم بھی آب ِ تیشہ جو تھی سنگ نے چاٹ لی ایک مزدور نے چاہ میں مُزد کی جس طرح کٹ سکی زندگی کاٹ دی اور آوارہ طائر کی مانند اب جھانکتا ہے پیاسی نظر سے  کوئی س کو چشمہ ملے یا کسی پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھ کر اونگھ لے دو گھڑی دور تک ہیں سرابوں ہی کے سلسلے پیڑ عنقا ہیں اور گرد کی چھاؤں ہے کشتہ ء خواب کو اجرت ومُزدمیں آس کا ایک اُجڑا ہو اگاؤں ہے مہرباں کوئی قاصد سنا کے اسے مژدۂ مرگِ شیریں گزر جائے گا اور یہ سنگِ منزل سے پھوڑ کر یا پھر اپنے ہی تیشے سے مرجائے گا

1960ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ93۔94 149۔ دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت جو ہوگئے ہو فسانہ تو یاد آؤ مت خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں اب اس طرح تو مری روح میں سماؤ مت زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت میں خدا بھی ہو تو اُسے درمیان لاؤ مت تمھارا سر نہیں طفلانِ رہ گزر کے لئے دیارِ سنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ مت سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ مت ہمارے عہد میں یہ رسمِ عاشقی ٹھہری فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ مت وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے سُخن کو پردۂ الفاظ میں چھپاؤ مت سُپرد کر ہی دیا آتشِ ہنر کے تو پھر تمام خاک ہی ہوجاؤ کُچھ بچاؤ مت 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ95۔96 150۔ شکستِ جاں سے سوا بھی ہے کارِفن کیا کیا شکستِ جاں سے سوا بھی ہے کارِفن کیا کیا عذاب کھینچ رہا ہے مرا بدن کیا کیا نہ کوئی ہجر کا دن ہے نہ کوئی وصل کی رات مگر وہ شخص کہ ہے جانِ انجمن کیا کیا ادا ہوئی ہے کئی بار ترکِ عشق کی رسم مگر ہے سر پہ وہی قرضِ جان و تن کیا کیا نگاہِ بو الہوساں ہائے کیا قیامت ہے بدل رہے ہیں گل ولالہ پیرہن کیا کیا گزرگئے تو گزرتے رہے بہت خورشید جو رنگ لائی تو لائی ہے اک کرن کیا کیا قریب تھا کہ میں کارِ جنوں سے باز آؤں کھنچی خیال میں تصویر کوہ کن کیا کیا 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ97۔98 151۔ نیند آنکھوں سے اڑی پھول سے خوشبو کی طرح نیند آنکھوں سے اُڑی پھول سے خوشبو کی طرح جی بہل جائے گا شب سے تیرے گیسو کی طرح دوستو جشن مناؤ کہ بہار آئی ہے پھول گرتے ہیں ہر اک شاخ سے آنسو کی طرح میری آشفتگیء شوق میں اک حسن بھی ہے تیرے عارض پہ مچلتے ہوئے گیسو کی طرح اب تیرے ہجر میں لذت نہ تیرے وصل میں لطف ان دِنوں زیست ہے ٹھہرے ہوے آنسو کی طرح زندگی کی یہی قیمت ہے کہ ارزاں ہو جاؤ نغمۂ درد کے لیے موجۂ خوشبو کی طرح کس کو معلوم نہیں کون تھا وہ شخص علیم جس کی خاطر رہے آوارہ ہم آہو کی طرح 1963ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ99۔100 152۔ نمو نمو میں وہ شجر تھا کہ میرے سائے میں بیٹھنے اور شاخوں پہ جھولنے کی ہزار جسموں کو آرزو تھی زمیں کی آنکھیں دراز عمرئ کی دعاؤں میں رو رہی تھیں اور سورج کے ہاتھ تھکتے نہیں تھے مجھ کو سنوارنے میں کہ میں اک آواز کا سفر تھا عجب شجر تھا کہ اُس مسافر کا منتظر تھا جو میرے سائے میں آ کے بیٹھے اور پھر نہ اٹھے جو میری شاخوں میں آ کے جُھولے تو سارا موسم یہیں گزارے مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا عجب مسافر تھا رہ گزر کا جو چھوڑ آیا تھا کتنے سارے جو توڑ آیا تھا کتنی شاخیں مگر لگا یوں کہ جیسے اب وہ شکستہ تر ہے وہ میرے خوابوں کا ہمسفر ہے سو میں نے سائے بچھا دیے تھے تمام جھولے ہلا دیے تھے مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا مگر وہ پاگل ہوا کا جھونکا عجب مسافر تھا رہ گزر کا کہ لمحے بھر میں گزر چکا تھا میں بے نمو اور بے ثمر تھا مگر میں آواز کا سفر تھا سو میری آواز کا اجر1 تھا  عجب شجر تھا عجب شجر ہوں کہ آنے والے سے کہہ رہا ہوں اے میرے دل میں اترنے والے اے مجھ کو شاداب کرنے والے تجھے مری روشنی مبارک تجھے مری زندگی مبارک 1۔میرا عجز سمجھ لیجئے 1969ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ101۔102 153۔ ایک نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہونے تک ایک نظارہ ہوں آنسو سے گہر ہونے تک اک تماشا ہوں میں شعلے سے شرر ہونے تک تُو ہے وہ رنگ کہ آنکھوں سے نہ اوجھل ہوگا میں ہوں وہ خواب کہ گزروں گا سحر ہونے تک لکھتے ہیں پر یہ نہیں جانتے لکھنے والے نغمہ اندوہِ سماعت ہے اثر ہونے تک تو کہیں بھی رہے زندہ ہے لہو میں میرے میں سنواروں گا تجھے خاک بسر ہونے تک ہائے وہ شمع جو اب دور کہیں جلتی ہے میرے پہلو میں بھی پگھلی ہے سحر ہونے تک 1968ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ103۔104 154۔ جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے جو دیکھو تو کہاں ماتم نہیں ہے مگر دنیا کی رونق کم نہیں ہے میں روتا ہوں کہ زخم ِ آرزو کو دعا دیتا ہوا موسم نہیں ہے نئی آنکھیں نئے ہیں خواب ہیں میرے مجھے یہ بھی سزا کچھ کم نہیں ہے ہوں خود اپنی طبعیت سے پریشاں مزاج ِ دہر تو برہم نہیں ہے ہوا کہ دوش پہ جلتا دیا ہوں جو بجھ جاوں تو کوئی غم نہیں ہے تو پھر میں کیا مری عرض ِ ہنر کیا صداقت ہی اگر پرچم نہیں ہے مجھے کچھ زخم ایسے بھی ملے ہیں کہ جن کا وقت بھی مرہم نہیں ہے 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ105۔106 155۔ پاؤ گے کہاں پناہ لوٹ آؤ پاؤ گے کہاں پناہ لوٹ آؤ گھر ہوگیا ہے تباہ لوٹ آؤ میری نہیں گر تو اپنی خاطر لوٹ آؤ دل و نگاہ لوٹ آؤ تم چاہ میں جس کی مر رہے ہو اس میں تو نہیں ہے چاہ لوٹ آؤ تم جب سے گئے ہو چاند میرے راتیں ہوئیں ہیں سیاہ لوٹ آؤ تم مل کے بچھڑ گئے ہو جس سے تکتا ہے تمہاری راہ لوٹ آؤ کیا ہوگئی زندگی تمہاری اب اے مرے کج کلاہ لوٹ آؤ بچھڑے ہوؤں کا پھر سے ملنا ایسا بھی نہیں ہے گناہ لوٹ آؤ 1969ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ107۔108 156۔ دوستو!خونِ شہیداں کا اثر تو دیکھو دوستو! خونِ شہیداں کا اثر تو دیکھو کاسۂ سر لیے آئی ہے سحر تو دیکھو درد کی دولتِ کمیاب مرے پاس بہت ظرف کی داد تو دو میرا جگر تو دیکھو منزلِ شوق گریزاں ہے گریزاں ہی سہی راہ گم کردہ مسافر کا سفر تو دیکھو کون بے وجہ اڑاتا ہے بہاروں کا مذاق مجھ کو الزام نہ دو اپنی نظر تو دیکھو چاند کا دشت بھی آباد کبھی کر لینا پہلے دنیا کے یہ اجڑے ہوئے گھر تو دیکھو فخر ہم پیشگئ دیدہ وراں جانے دو داغِ ہم پیشگئ ننگ ِہنر تو دیکھو 1961ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ109۔110 157۔ تیرا اندازِ سخن یاد آیا تیرا اندازِ سخن یاد آیا اپنے چپ رہنے کا فن یاد آیا جس کی خوشبو سے معطر تھا دماغ پھر وہ شاداب چمن یاد آیا ہم جسے جیت کے بھی ہارگئے پھر وہی وعدہ شکن یاد آیا یاد آئے ہیں مسیحا اپنے جب کوئی زخمِ کہن یاد آیا موجِ خوں تھی کہ محبت اپنی جب بھی آیابدن یاد آیا ہم کو جنت بھی جہنم ہوگی گریہی رنج ومحن یاد آیا سوچتا ہوں کبھی اس کو بھی علیم مری غزلیں مرا فن یاد آیا 1959ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ111۔112 158۔ تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی تھی جو محبتوں میں نزاکت نہیں رہی کیا عشق کیجئے کہ روایت نہیں رہی کہتے تھےہم کہ جی نہ سکیں گے ترے بغیر یہ کیا ہُوا کہ تجھ سے محبت نہیں رہی رُسوائیوں سے بڑھ تو گیا زندگی کا بوجھ پر یہ ہُوا کہ خُود سے ندامت نہیں رہی کھنچتی تھی جس سےحرف میں اِک صورتِ خیال وہ خواب دیکھتی ہوئی وحشت نہیں رہی اے موسمِ حیات و زمانہ کے شکوہ سنج کیاصبر آگیا  کہ شکایت نہیں رہی کیا نذر دیں جو کوئی نئی آرزو کریں دل میں تو ٹوٹنے کی بھی ہمّت نہیں رہی جس سمت جائیے وہی ملتے ہیں اپنے لوگ اُس کی گلی ہی کوئے ملامت نہیں رہی 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ113۔114 159۔ آشنا اجنبی کے نام آشنا اجنبی کے نام کب تک آخر ہم سے اپنے دل کا بھید چھپاؤ گی تمھیں راہ پہ اک دن آنا ہے، تم راہ پہ آ ہی جاؤ گی کیوں چہرہ اُترا اُترا ہے کیوں بجھی بجھی سی ہیں آنکھیں سُنو عشق تو ایک حقیقت ہے، اسے کب تک تم جُھٹلاؤ گی سب رنگ تمہارے جانتا ہوں، میں خوب تمہیں پہچانتا ہوں کہو کب تک پاس نہ آؤ گی کہو کب تک آنکھ چُراؤ گی بھلا کب تک ہم اک دوسرے کو چُھپ چُھپ کر دیکھیں اور ترسیں ہمیں یار ستائیں گے کب تک ، تم سکھیوں میں شرماؤ گی یہ سرو تنی، محشر بدَنی، گُل پیرہنی، گوھر سُخَنی سب حسن تمہارا بے قیمت، گر ہم سے داد نہ پاؤ گی جب کھیل ہی کھیلا شعلوں کا پھر آؤ کوئی تدبیر کریں ہم زخم کہاں تک کھائیں گے تم غم کب تک اپناؤ گی چلو آؤ بھی ہم تم مل بیٹھیں اور نئے سفر کا عہد کریں ہم کب تک عمر گنوائیں گے، تم کب تک بات بڑھاؤ گی میں شاعر ہوں، مرا شعر مجھے کسی تاج محل سے کم تو نہیں میں شاہ جہانِ شعر تو تم ممتاز محل کہلاؤ گی نہیں پاس کیا گر عشق کا کچھ اور ڈریں نہ ظالم دنیا سے شاعر پہ بھی الزام آئیں گے، تم بھی رسوا ہو جاؤ گی 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ115۔116 160۔ تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ تیرے پیار میں رسوا ہو کر جائیں کہاں دیوانے لوگ جانے کیا کیا پوچھ رہے ہیں یہ جانے پہچانے لوگ ہر لمحہ احساس کی صہبا روح میں ڈھلتی جاتی ہے زیست کا نشّہ کچھ کم ہو تو ہو آئیں میخانے لوگ جیسے تمھیں ہم نے چاہا ہے، کون بھلا یوں چاہے گا مانا اور بہت آئیں گے تم سے پیار جتانے لوگ یوں گلیوں بازاروں میں آوارہ پھرتے رہتے ہیں جیسے اس دنیا میں سبھی آئے ہوں عمر گنوانے لوگ آگے پیچھے دائیں بائیں سائے سے لہراتے ہیں دنیا بھی تو دشتِ بلا ہے، ہم ہی نہیں دیوانے لوگ کیسے دُکھوں کے موسِم آئے کیسی آگ لگی یارو اب صحراؤں سے لاتے ہیں پھولوں کے نذرانے لوگ کل ماتم بے قیمت ہو گا، آج اِن کی توقیر ہو گا دیکھو خونِ جگر سے کیا کیا لکھتے ہیں افسانے لوگ 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ117۔118 161۔ باعثِ ننگ نہیں صرف ِغمِ جاناں ہونا باعثِ ننگ نہیں صرفِ غمِ جاں ہونا میری قیمت ہے ترے شہر میں ارزاں ہونا یہ اندھیرے تو سمٹ جائیں گے اک دن اے دوست یاد آئے گا تجھے مجھ سے گریزاں ہونا تم مجھے دیکھ کے اس درجہ پریشاں مت ہو میرے جی کا تو بہلنا ہے پریشاں ہونا کیسے جیتے ہیں جنھیں طاقتِ اظہار نہیں اپنے تو درد کا درماں ہے غزل خواں ہونا مہرباں لوگ مرا نام جو چاہے رکھ لیں ان کے منہ سے تو مجھے ننگ ہے انساں ہونا نہ رہا شکوۂ بے مہریِ ایّام کہ اب اپنی حالت پہ مجھے آ گیا حیراں ہونا کوئی بتلائے یہ تکمیلِ وفا ہے کہ نہیں اشک بن کر کسی مژگاں پہ نمایاں ہونا اُس نے پوچھا ہے بڑے پیار سے کیسے ہو علیمؔ اے غمِ عشق ذرا اور فروزاں ہونا 1959ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ119۔120 162۔ خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں خواب ہی خواب کب تلک دیکھوں کاش تجھ کو بھی اِک جھلک دیکھوں چاندنی کا سماں تھا اور ہم تم اب ستارے پلک پلک دیکھوں جانے تو کس کا ہم سفر ہوگا میں تجھے اپنی جاں تلک دیکھوں بند کیوں ذات میں رہوں اپنی موج بن جاؤں اور چھلک دیکھوں صبح میں دیر ہے تو پھر اِک بار، شب کے رُخسار سے ڈھلک دیکھوں اُن کے قدموں تلے فلک اور میں صرف پہنائی فلک دیکھوں​ 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ121 163۔ ہنی مون ہنی مون رات مہتاب اور صُبح گُلاب دُھل رہے ہیں وہ جسم وجاں کےعذاب چُھو کے سب دیکھتا ہوں اپنے خواب رات مہتاب اور صُبح گُلاب 1970ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ122 164۔ کتھارسس کتھارسس مجھے خبر ہے تمھاری آنکھوں میں جو چھُپا ہے تمھارے چہرے پہ جو لکھا ہے لہو جو ہر آن بولتا ہے مجھے بتا دو، اور اپنے دکھ سے نجات پا لو 1973ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ123۔124 165۔ وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی وہ خواب خواب فضائے طرب نہیں آئی عجیب ہی تھی وہ شب، پھر وہ شب نہیں آئی جو جسم و جاں سے چلی جسم و جاں تلک پہنچی وہ موجِ گرمیٔ رخسار و لب نہیں آئی تو پھر چراغ تھے ہم بے چراغ راتوں کے پلٹ کے گزری ہوئی رات جب نہیں آئی عجب تھے حرف کی لذت میں جلنے والے لوگ کہ خاک ہوگئے خوئے ادب نہیں آئی جو ابر بن کے برستی ہے روحِ ویراں پر بہت دنوں سے وہ آوازِ رب نہیں آئی صدا لگائیں اور اپنا مذاق اُڑوائیں یہ اہلِ درد پہ اُفتاد کب نہیں آئی کیا ہے اپنے ہی قدموں نے پائمال بہت یہ ہم میں کج کلہی بے سبب نہیں آئی 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ125۔126 166۔ وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے وحشتیں کیسی ہیں خوابوں سے الجھتا کیا ہے ایک دنیا ہے اکیلی تُو ہی تنہا کیا ہے داد دے ظرفِ سماعت تو کرم ہے ورنہ تشنگی ہے مری آواز کی نغمہ کیا ہے بولتا ہے کوئی ہر آن لہو میں میرے پر دکھائی نہیں دیتا یہ تماشا کیا ہے جس تمنّا میں گزرتی ہے جوانی میری میں نے اب تک نہیں جانا وہ تمنّا کیا ہے یہ مری روح کا احساس ہے آنکھیں کیا ہیں یہ مری ذات کا آئینہ ہے چہرہ کیا ہے کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے زندگی کی اے کڑی دھوپ بچالے مجھ کو پیچھے پیچھے یہ مرے موت کا سایہ کیا ہے 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ127۔128 167۔ آؤ تم ہی کرو مسیحائی آؤ تم ہی کرو مسیحائی اب بہلتی نہیں ہے تنہائی تم گئے تھے تو ساتھ لے جاتے اب یہ کس کام کی ہے بینائی ہم کہ تھے لذّتِ حیات میں گم جاں سے اِک موج ِ تشنگی آئی ہم سفر خوش نہ ہو محبّت سے جانے ہم کس کے ہوں تمنّائی کوئی دیوانہ کہتا جاتا تھا زندگی یہ نہیں مرے بھائی اوّلِ عشق میں خبر بھی نہ تھی، عزّتیں بخشتی ہے رسوائی کیسے پاؤ مجھے جو تم دیکھو سطح ِ ساحل سے میری گہرائی جن میں ہم کھیل کر جوان ہوئے وہی گلیاں ہوئیں تماشائی 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ129 168۔ آئیڈیل آئیڈیل میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو وہ مرا آئینہ جس سے خود جھلک جاؤں کبھی ایسا موسم، جیسے مے پی کر چھلک جاؤں کبھی یا کوئی ہے خواب جو دیکھا تھا لیکن پھر مجھے یاد کرنے پر بھی یاد آیا نہ تھا دل یہ کہتا ہے وہی ہو بہو اور سامنے پایا نہ تھا گفتگو اُس سے ہے اور ہے روبرو خواب ہو جائے نہ لیکن گفتگو میری آنکھوں میں کوئی چہرہ، چراغِ آرزو 1969ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ130 169۔محسوس یہ ہوتا ہے کوئی ہر لمحہ خلوت وجلوت میں محسوس یہ ہوتا ہے کوئی ہر لمحہ خلوت وجلوت میں ہے ساتھ مرے اور پوچھتا ہے اب حال تمھارا کیسا ہے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ131۔132 170۔ گیت گیت گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہل ِمحبت کےنام کتنی حسین میری زمین میرے لہو کا سلام میری وفا کا شعلہ جلتا رہے صبح وشام میرے بدن کی مٹی آئے سدا تیرے کام گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کا نور اس کی فضاؤں میں ہے موج ِ بہاراں سرور گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کے نام میرے شہیدوں کا خوں ارضِ وطن کا نکھار گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کے نام کتنی حسین میری زمین میرے لہو کا سلام گھر کے چراغ روشن ہیں آج اہلِ محبت کے نام 1971ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ133۔134 171۔ جی جان سے ہے ارض وطن مان گئے ہم جی جان سے اے ارض وطن مان گئے ہم جب تو نے پکارا تیرے قربان گئے ہم جو دوست ہوا اُس پہ محبت کی نظر کی دشمن پہ تیرے صورت طوفان گئے ہم ہم ایسے وفادار و پرستار ہیں تیرے جو تُو نے کہا تیرا کہا مان گئے ہم مرہم ہیں تیرے ہونٹ مسیحا ہے تیری زلف ہم موجہء گل تھے کہ پریشان گئے ہم افسوں کوئی چلنے نہ دیا حیلہ گراں کا ہر شکل عدو کی تیرے پہچان گئے ہم خاک شہداء نے تیرے پرچم کو دعا دی لہرا کے جو پرچم نے کہا جان گئے ہم 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ135۔136 172۔ ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار ابھی نہ کوئی پیمبر نہ میں کوئی اوتار اے مری روشنیء طبع مجھ کو اور سنوار نشاط ِ رنج ہو رنج ِ نشاط ہو کچھ ہو حیات رقص ہے وحشت کا اور دائرہ وار اُسی کا نام محبت ہوا زمانے میں وہ اک نشہ کہ سیکھا نہیں ہے جس نے اُتار میں اعتراف ِ شکست بہار کر لوں گا ذرا اڑے تو سہی بوئے زلف ِ عنبر یار رہ وفا میں چلو پھر سے اجنبی بن جائیں کہ ڈھل رہا ہے پرانی محبتوں کا خمار اس ایک قطرہ خوں کا ہے نام شعر علیم جو دل میں ہو تو خزاں اور ٹپک پڑے تو بہار 1965ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ137۔138 173۔ حادثہ گراں گزراآپ سے تصادم کا حادثہ گراں گزراآپ سے تصادم کا زندگی پہ ہوتا ہے اب گماں جہنم 1کا روپ موسمِ گل نے اور خزاں نے دھارے ہیں ایک میری آہوں کا اک ترے تبسم کا لوگ اپنے دل کی بات ڈھونڈتے ہیں نغموں میں صرف اک بہانہ ہے ساز کا ترنم کا ہم سے سادہ لوگ اکثرآگئے ہیں دھوکے میں کتنا دل نشیں لہجہ ہے ترے تکلم کا تیری یاد تیرا غم اور شب کا سناٹا زخمِ دل کی صورت ہے روپ ماہ وانجم کا کیوں علیم ہر لمحہ کھوئے کھوئے رہتے ہو کس سے دل ہی دل میں ہے سلسلہ تکلم کا 1959ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ139 174۔ ساتھی سے ساتھی سے میں خود ہی اپنی بہاروں سے روٹھنے لگوں گر تو تم مجھے روٹھنے نہ دینا جو وار لمحے کا ہو وہ سہنا یہ سوچ لینا کہ ایک لمحہ گریز کا کیسے محبتوں کی اک عمر پامال کر کے گزر رہا ہے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ140 175۔ اے مسیحا کہو کہ کب تک آخر اے مسیحا کہو کہ کب تک آخر اپنے بیمار کے گھر آؤ گے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ141۔142 176۔ اب تک وہی خواب ہیں وہی میں اب تک وہی خواب ہیں وہی میں وہی میرے گلاب ہیں وہی میں آنکھوں میں وہی ستارہ آنکھیں وہی دل میں گلاب ہیں وہی میں یہ جسم کہ جاں کی تشنگی ہے وہی تازہ سراب ہیں وہی میں زندہ ہوں ابھی تو مات کیسی وہی جاں کے عذاب ہیں وہی میں کہتی ہے زباں خموشیوں کی وہی درد کے باب ہیں وہی میں پڑھتے ہوئے جن کو عمر گزری وہی چہرے کتاب ہیں وہی میں لکھتے ہوئے جن کو جان جائے وہی حرف نصاب ہیں وہی میں وہی رنجشیں اپنے دوستوں سے وہی دل کے حساب ہیں وہی میں آتے ہیں مگر نہیں برستے وہی تشنہ سحاب ہیں وہی میں دنیا کے سوال اور دنیا وہی میرے جواب ہیں وہی میں 1973ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ143۔144 177۔ میں زندہ ہوں میں زندہ ہوں آخری رات تھی وہ میں نے دل سے یہ کہا حرف جو لکھے گئے اور جو زباں بولی گئی سبھی بیکار گئے میں بھی اب ہار گیایار بھی سب ہار گئے کوئی چارہ نہیں جزترکِ تعلق اے دل اک صدا اور سہی آخری بار جسم سے چھیڑاُسے روح سے چھو لے اُسے آخری بار بہے سازِ بدن سے کوئی نغمہ کوئی لَے آخری رات ہے یہ آخری بار ہے یہ ذائقہ ء بوسہ و لمس آخری بار چھلک جائے لہو گرمئ جاں  سےمہک جائے نفس کی خوشبو خواب میں خواب کے مانند اُترجااے دل آخری رات تھی وہ پھر گزر کوئے ندامت سے ہوا تو دیکھا بام روشن ہے جو تھا اور دروازے پہ دستک ہے وہی میرا قاتل درودیوار پہ کچھ نقش بناتا ہے ابھی انگلیاں خون سے تر،دلِ کم ظرف کو ہے واہمۂ عرض ِ ہنر دن کی ہر بات ہوئی بے توقیر رات ہےاور بے ضمیر چشم ہے منتظرِخواب دگر خواب آتے ہیں ٹھہرتے ہیں چلے جاتے ہیں اور قاتل کی سزا یہ بھی کہ میں زندہ ہوں 1970ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ145 178۔ سچ سچ میں بھی اک جھوٹ  ہوں تم بھی اک جھوٹ ہو اورسچ! اپنے ہی درمیاں ہے جسے میں نہیں  جانتا تم نہیں جانتے 1966ء  عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ146 179۔ سایۂ دیوار ودر میں آگئے سایۂ دیوار ودر میں آگئے گھر کے سارے لوگ گھر میں آگئے مرتے تھے ہم جن گلابوں پر بہت زخم کی صورت جگر میں آگئے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ147 180۔ آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا آنکھ سے دور سہی دل سے کہاں جائے گا جانے والے تو ہمیں یاد بہت آئے گا خواب سا دیکھا ہے تعبیر نہ جانے کیا ہو زندگی بھر کوئی اب خواب ہی دوہرائے گا ٹوٹ جائیں نہ کہیں پیار کے نازک رشتے وقت ظالم ہے ہر اک موڑ پہ ٹکرائے گا عشق کو جرم سمجھتے ہیں زمانے والے جو یہاں پیار کرے گا وہ سزا پائے گا 1964ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ148 181۔ جاگنے والوں کو کیا معلوم جاگنے والوں کو کیا معلوم اب کے سوئیں گے توکون سے خواب آئیں گے اورکون سے سیلاب میں بہہ جائیں گے عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ149۔150 182۔ دیوی دیوی دکھ سکھ تجھے سنانے والے اپنی مرادیں پانے والے دیئے جلانے ،پھول چڑھانے آنے والے دیوی ہائے زمانے والے اِن کی محبت،اِن کی عقیدت میں اِنہی کو کستی جا زخم پہ مرہم رکھنے والی زخم پہ مرہم رکھتی جا باہر باہر چپ سادھے رکھ اند اندر ہنستی جا دکھ کہنے والوں سے دکھ سہنے والے لوگ بڑے ہوتے ہیں جب تک چپ ہے ساتھ ہیں تیرے جس دن بول اٹھے گی اُس دن تُو تنہا رہ جائے گی اِن جیسی ہوجائے گی 1973ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ151۔152 183۔ وجود اپنا مجھے دے دو وجود اپنا مجھے دے دو تمھارے ہیں کہو اک دن کہو اک دن کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمھارا ہے کہو اک دن جسے تم چاند سا کہتے ہو وہ چہرہ تمھارا ہے ستارہ سی جنھیں کہتے ہو وہ آنکھیں تمھاری ہیں جنھیں تم شاخ سی کہتے ہو وہ بانہیں تمھاری ہیں کبوتر تولتے ہیں پر تو پروازیں تمھاری ہیں جنھیں تم پھول سی کہتے ہو وہ باتیں تمھاری ہیں قیامت سی جنھیں کہتے ہو رفتاریں تمھاری ہیں کہو اک دن کہو اک دن کہ جو کچھ بھی ہمارے پاس ہے سب کچھ تمھارا ہے اگر سب کچھ یہ میرا ہے تو سب کچھ بخش دو اک دن وجود اپنا مجھے دے دو محبت بخش دو اک دن میرے ہونٹوں پہ اپنے ہونٹ رکھ کر روح میری کھینچ لو اک دن 1973ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ153 184۔ نیلے رنگ کی چادر نیلے رنگ کی چادر آدمی خارش زدہ کتے کی طرح اپنے پنجوں سے کھجاتا ہے زمیں کی کھال کو، بھوک بھی لگتی نہیں اور شہوتیں بھی مرگئیں کاش ایسا ہو کہ پھر سے کوئی نیلے رنگ کی چادر زمیں پر پھینک دے 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ154 185۔ میں گہری نیند سونا چاہتا ہوں میں گہری نیند سونا چاہتا ہوں بس اب خاموش ہونا چاہتا ہوں جو بچھڑے ہیں کہ روٹھے ہیں میں اُن سے گلے مل مل کے رونا چاہتا ہوں عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ155 186۔ کاش ہم بچہ ہی رہتے کاش ہم بچہ ہی رہتے فلسفی بولے زمیں کے ہاتھ میں اک شاخ ہے زیتون کی بجھ گئی تو بجھ گئی اور کِھل اٹھی تو کِھل اٹھی ہم ہی مر جائیں گے اک دن وقت تو مرتا نہیں کاش ہم بچہ ہی رہتے اور کبھی نہ ٹوٹنے والے کھلونے کھیلتے 1972ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ156 187۔ کوئی ہوا ہو کوئی فضا ہو دیکھنے والی آنکھوں کے کوئی ہوا ہو کوئی فضا ہو دیکھنے والی آنکھوں کے اشک کہاں تھمنے ہائے ہیں زخم کہاں بھرنے پائے ہیں جب نہیں لکھیں تب بھی لکھیں جب نہیں سوچیں تب بھی سوچیں ہم وہ لاگ تھے جو اک پل آرام نہ کرنے پائے پوچھو تو بتلا نہ سکیں کیا بات تھی اس میں ایسی چاہیں تو سمجھا نہ سکیں جو رنگ نظر نے پائے اس لمحے تو دھڑکن دھڑکن دل سے دعا نکلتی ہے  وقت تو گزرے لیکن یہ موسم نہ گزرنے پائے (آہنگ میں لکھی گئی) عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ157۔158 188۔ ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کا روؤ تو چشمِ نم میں ہوں ہنسو تو رنگ ہوں چہرے کاروؤ تو چشمِ نم میں ہوں تم مجھ کو محسوس کرو تو ہر موسم میں ہوں چاہا تھا جسے وہ مل بھی گیا پر خواب بھرے ہیں آنکھوں میں اے میرے لہو کی لہر بتا اب کون سے میں عالم میں ہوں لوگ محبت کرنے والے دیکھیں گے تصویر اپنی ایک شعاعِ آؤارہ ہوں آئینۂ شبنم میں ہوں اُس لمحے تو گردش خوں نے میری یہ محسوس کیا جیسے سر پہ زمین اٹھائے اک رقصِ پیہم میں ہوں یار مرا زنجیریں پہنے آیا ہے بازاروں میں میں کہ تماشا دیکھنے والے لوگوں کے ماتم میں ہوں جو لکھے وہ خواب مرے اب آنکھوں آنکھوں زندہ ہیں جواب تک نہیں لکھ پایا میں اُن خوابوں کےغم میں ہوں (آہنگ میں لکھی گئی) 1973ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ159۔160 189۔ اب تو فراقِ صبح میں بجھنے لگی حیات اب تو فراقِ صبح میں بجھنے لگی حیات بارِ الٰہ کتنے پہر رہ گئی ہے رات جاگے کوئی ستارۂ صبحِ یقیں کہ پھر سر سے بلند ہوگیا سیلِ توہّمات ہر تیرگی میں تُو نے اُتاری ہے روشنی اب خود اُتر کے آ کہ سیہ تر ہے کائنات کچھ آئینے سے رکھے ہوئے ہیں سرِ وجود اور اِن میں اپنا جشن مناتی ہے میری ذات بولے نہیں وہ حرف جو ایمان میں نہ تھے لکھی نہیں وہ بات جو اپنی نہیں تھی بات اے گردشِ زمیں مجھے آنکھوں میں اپنی دیکھ میں ہوں‘ مگر یہ خواب نہیں میرے بے ثبات 1973ء عبید اللہ علیم ؔ یہ زندگی ہے ہماری۔  چاند چہرہ ستارہ آنکھیں صفحہ160 190۔ ایک مصرع بھیجتے رہیئے سلام بے نشاں پرچم کے نام عبید اللہ علیم ؔ